سمندر کے رکھوالے، آپریشن زرپہازگ ۔ علی جان بلوچ

628

سمندر کے رکھوالے، آپریشن زرپہازگ 

تحریر: علی جان بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

انسان فطری طور پر ہر چیز کو زیادہ دیر تک اہمیت دینے کا قائل

نہیں ہوتا وہ کسی بھی چیز کو آنکھوں سے دل میں اتار کر پھر جوتوں کے نیچھے روند دیتا ہے، کچھ معاملوں پر انسان کی گرفت کمزور پڑ جاتی ہے اور وہ اس چیز کی انتہاء میں اتنا گر جاتا ہے کہ اس پر سب کچھ فدا کرنے کا فیصلہ کرتا ہے۔ لیکن ہر چیز کا نوعیت الگ ہوتا ہے، ہر چیز پر قربان ہونے کا فلسفہ الگ ہوتاہے ہر چیز پر نظروں کا زاویہ مختلف ہوتا ہے۔لیکن بات جب زمین پر آتی ہے تو ہر انسان خواہ کس مذہب یا نسل کا کیوں نہ ہو وہ عشقء زمین میں کھو جاتا ہے اسےوہاں پر ہر مذھب زمین، اور زمین سے منسلک ہر چیز عبادت لگتا ہے۔ پھر راستے کتنےہی پر خطر کیوں نہ ہوں، وہ اسےآسان بنا دیتا ہے پھر ہر کہانی کے بعد ایک نئی کہانی تسلسل کے ساتھ شروع ہوتا ہے۔

اسی تسلسل کو برقرار رکھنے کیلئے ایک دن آپریشن کمانڈ کا پیغام آتا ہےکہ کام کیلئےنکلنا ہوگا مرکزی کیمپ سے 500میٹر دور دو سنگت ملیں گے انہیں زمہداری کے ساتھ جگہ تک پہنچانا ہے۔

جب اگلی صبح میں بتائی ہوئی جگہ پر پہنچا توپہلے سے ہی میرے انتظارمیں بیٹھے دو سنگتوں نے مجھے سلام کیا، جس کا تعارف مجھ سے قائم خان ، اسلم بلوچ سےہوئی۔ بات چیت کے بعد میں نے کہا سفر لمبا ہے ہمیں نکلنا ہوگا اور آگےضروری ساز سامان لینے کے بعد دوبارہ سفر کیلئےروانہ ہوناہے۔ یہاں سے ہمارا زرپہازگ کا سفر شروع ہوا۔ دونوں دوست یارانہ ،مخلص ساتھی اور جنگ کے پورے تقاضوں کو مکمل کرنے والے ساتھی تھے۔

کچھ گھنٹےسفر کرنےبعد شام کے وقت ہم شہر کےنزدیک پہنچے اور ہمیں رات ہونےکا انتظار کرنا پڑا۔ جب ہم جگہ پر پہنچے تو سب سےپہلے جنگی اصولوں کے تحت جنگی ساز سامان کو تیار کیا تاکہ کسی ناخوشگوار واقع پر جوابی کاروائی کر سکیں وہاں زندگی کی باقی الجھنوں اور مسائل سے ڈوبے لوگ اپنی دنیا کی بحث مباحثوں میں مصروف تھے، ان لوگوں سے الگ دو اور کردار اپنی کل کے دن میں کے بارے میں سوچ رہے تھے، جنہوں نے ان سارے لوگوں کی الجھنوں کا بیڑا اٹھایا ہوا تھا۔ ایک طرف چین بلوچ ساحل وسائل کے استحصال کی 10ویں سال کا جشن منارہا تھا تو دوسری طرف پاکستان اپنی غیر فطری ریاست کے 76ویں سال کا جشن منانے کی تیاریوں میں مصروف تھا۔ ان کے بر عکس اسی شہر میں دو نوجوان اپنی زر و زمین کی خاطر خود کو تاریخ میں ضم کرنے کیلئے آئے ہیں وہ حمل کی داستان کو انجام تک لے جانے کیلئے آئے ہیں وہ سمندر کو قابض کی ناسور مرض سے چھٹکارہ دینے آئےہیں۔

صبح ہوتےہی قابض اپنی سکیورٹی اہلکاروں کو روڈ کے اطراف لگانا شروع کردیتاہے، چاروں طرف سکیورٹی اہلکاروں کا آنا جانا شروع ہوجاتاہے۔ ایک چھوٹےسےٹارگٹ ایریا میں 10سے زیادہ سکیورٹی اہلکار اور ٹارگٹ کے ساتھ سکیورٹی کے قافلے پر حملہ کرنا آسان نہیں تھا لیکن راستےپر خطر کیوں نہ ہو ں، وہ اسے آسان بنا دیتےہیں کیونکہ بات زمین کی ہے بات عبادت کی ہے۔

جب آخری وقت میں نےقائم اور اسلم سے پوچھا کہ آخری پیغام ہو توبتا دیں اسے آگے پہنچاوں گا توفدائی قائم نےکہا۔ پیغام میں نہیں میرے بندوق سے نکلی ہوئی گولی دے گی میں ان گلیوں اور گھروں سے واقف ہوں وہ آج اپنا سب کام چھوڑ کر مجھے سنیں گے اور آخر میں مزاحیہ انداز میں کہا کہ جب میں دشمن پر گولیاں بر ساوں گا تو لوگ جواب میں کہیں گے {بجن اڈے درا }ہم نے ہنستے ہوئے کہا ہم ضرور کہیں گے {بجن اڈے درا }۔

اسلم کے ساتھ پہلے سے ہی میرے قریبی دوستوں کا رابطہ ہوا کرتا تھا ہم نے بہت سی تنظیمی پیچیدہ کاریوں پر تبصرے کئے تھے تو ہم دونوں میں کوئی بات چھپی نہیں تھی۔ میں نے اسلم کو {حملء ہمراہ بے دلیں دشتی بوتگاں}کا طعنہ دیتےہوئے کہا آپ کیا کہو گے تمہارا تعلق دشت سے ہے اور دشت،حمل،گوادر،زر آپس میں تم لوگوں کا پرانا رشتہ ہے۔ تو بہت خوبصورت انداز میں فدائی اسلم نے جواب دیا کہ ہم اپنی ماضی کی بوجھ کو اپنے آنےوالے کل کےماتھے پر نہیں لگا سکتے میں نہیں جانتا کہ ماضی میں ہمارا کیا کردار تھا۔ لیکن جو داغ ہمارے ماتھے پرلگا ہے ہو سکتا ہے کچھ لوگوں کی نادانی سے ہوا ہو لیکن لوگ ہماری ماضی کو سامنے رکھ کر خودکو بری ذمہ نہیں کرسکتے کیونکہ میں کل نہیں، آج ہوں، ہم حمل کے ادھورے داستان کو آذادی کے صبح تک لے جائیں گے۔ مجھے اپنی ماضی پر کوئی افسوس یا شرمندگی نہیں ہے کیونکہ مجھے اپنے آج پر فخر ہے میں اس زر کی خاطر جان نچھاور کر رہا ہوں جس کی خاطر ہزاروں بلوچوں نے قربانیاں دی ہے اور آگے بھی دیں گے کیونکہ ہر کوئی اپنے حصے کا کام کرکےچلا جاتاہے۔

قربان بلکل سنگت ہم سب کو بس اپنے حصےکا کام کرنا ہے۔ قائم نے ہنستے ہوئےکہا{تو وا جذباتی بوتے} دشمن کے انتظار میں انکھیں سڑک پر انگلیاں ٹریگر پر رکھے دو فدائی ایک نئی داستان رقم کرنے جارہےہیں۔ جہاں لوگ زندگی اور درد کےکشمکش میں کوئی روزگار کی تلاش میں جارہا ہے تو کوئی تھکاوٹ بدن زیرو امید کے ساتھ واپس آرہا ہے ۔جہاں سے روحیں چیخ کر جسموں کو الوداع کرینگے عین اسی جگہ پر مورخ قلم لئے تاریخ کے دھارا کو پلٹے گی۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔