ریاست اور ماں
تحریر: آفتاب بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
اکثر میں نے لوگوں کو کہتے ہوئے سنا کہ ریاست ماں ہوتی ہے میں اس بات کو رد نہیں کرتا لیکن میں اس بات کو پوری طرح مانتا بھی نہیں ہوں کیونکہ دنیا میں آج تک ماں کا درجہ کسی کو حاصل نہیں ہوا ہے ابھی تک اور نہ ہی حاصل ہوگا. دوسری جانب لوگ ماں کو جنت سے تشبیہہ دیتے ہیں اس میں کوئی شک نہیں ہے اگر ریاست کو ماں سے تشبیہہ دیا گیا ہے تو ریاست بھی جنت سے ہوا ہوگا پھر جنت میں کوئی مسائل نہیں ہیں، جنت میں کوئی بھی برائی نہیں ہے اور ایک ماں کے دل میں بھی اپنے بیٹوں کیلئے برائی نہیں ہوگی۔ آج تک دنیا میں ایسا ریاست نہیں بنا ہے جس کے شہری اُن کے زندانوں میں بند نہ ہوں تو ایسا کوئی بھی ریاست نہیں ہے جس میں برائی نہ ہو ایسا کوئی بھی ریاست نہیں ہے جس میں قتل و غارت نہ ہو تو ایک ماں اپنے گھر کے اندر یہ سب برداشت نہیں کرسکتی۔
اگر ایک ریاست میں یہ ساری برائیاں ہوں تو وہ ریاست ماں کیسی ہوئی؟ ایک ماں کو بد چلن ماں تب ہی کہا جاتا ہے جب اُس کی حرکتیں اچھی نہ ہو۔ اسی طرح اگر ایک ریاست کی حرکتیں اچھی نہ ہوں تو وہ بھی بد چلن ماں کی طرح ہی بد ریاست ہوتی ہے. ایسی بھی ریاستیں دنیا میں ہیں جن کے اندر بچے اپنے باپ، بیویاں اپنے شوہروں اور مائیں اپنے بیٹوں کے انتظار میں کئی سالوں سے ہاتھوں میں پوسٹرز لیئے بیٹھے ہیں۔ اگر واقعی میں ریاست ماں ہوتی ہے تو ایک ماں دوسری ماں کی درد کو کیوں محسوس نہیں کرتی۔ شاید اشرافیوں نے لوگوں کو بلیک میل کرنے کیلئے ریاست کو ماں کا درجہ دیا ہوگا۔
اشرافیوں کو لوگوں کا بھروسہ حاصل کرنا تھا لوگوں نے یہ سوچ کر اس بات کو ماننے لگے کہ ایک حقیقی ماں کبھی اپنی اولاد کو دھوکہ نہیں دیتی، کبھی اپنی اولاد کی برائی نہیں سوچتی بلکہ ایک حقیقی ماں کا ہمیشہ یہی کوشش ہوتی ہے کہ ان کے بیٹے دوسری برائیوں سے دور رہیں اور ہمیشہ سچ کا ساتھ دیں اور ہر میدان میں فتحیاب ہو لیکن لوگ اس بات سے لاعلم تھے کہ ماں خدا کا ایک خاص تحفہ ہے اور ماں کی مہر و محبت لاجوب اور بے نظیر ہے جہاں تک ریاست کی مہر ہے وہ مہر نہیں بلکہ قہر ہے اپنی باسیوں پر جسے مہر و محبت کی شکل دی گئی ہے اور اپنے مفادات کی خاطر میں۔ ریاست کبھی ماں سے اچھی نہیں ہو سکتی کیونکہ ریاست لوگوں کا تشکیل کردہ ایک خیال تھا اور لوگ بغیر لالچ کے سڑک کنارے گرے ہوئے کانٹا تک نہیں اٹھاتے اور ماں لالچی نہیں ہوتی نہ وہ انسانوں کا تیار کردہ ایک شے ہے۔
ریاست سچ بولنے والوں کو کچل دیتا ہے اپنی باسیوں کے آوازیں ہمیشہ کیلئے بند کر دیتا ہے اُسے ڈر ہے کہ ریاست اُنہی لوگوں کی بنائی ہوئی ہے اور وہ حقیقت سے آشنا ہیں ان کو چُپ کرانے میں ریاست طرح طرح کے حربے استعال کرتا ہے۔ اپنی لوگوں کو لاپتہ کرتا ہے اُن کی مسخ شدہ لاشیں پھینکتا ہے جب کہ ایک ماں ہمیشہ اپنی بچوں کو سچ بات کرنے کی اور سیدھا راستے پر چلنے کی درس دیتی ہے۔ تاریخ ایسی مثالوں سے بھری پڑی ہے کہ ناکام ریاستوں نے بہادر مائیں جنم دی ہیں اپنی گھر اور عزت کی دفاع کیلئے پھر اُنہی ماوں نے بہادر بیٹے جنم دی ہیں اپنی ہی ہاتھوں سے اپنی لخت جگر کے سینے کو بارود سے باندھ کر اور اپنی دفاع کیلئے بیھجنا یہی حقیقی ماں کی نشانی ہے نہ کہ اپنے ہی باسیوں کو زلت کہ زندگی گزارنے پر مجبور کرنا ماں کی نشانی ہوتی ہے۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔