اتوار کے روز کوئٹہ پریس کلب میں طویل عرصے سے جبری گمشدگی کے شکار راشد حسین بلوچ کے حوالے سے ایک سیمینار کا انعقاد کیا گیا۔
سیمینار سے لاپتہ آصف اور رشید کی بہن سائرہ بلوچ ، لاپتہ ذاکر مجید کی والدہ، بلوچ وومن فورم کے آرگنائزر ڈاکٹر شلی بلوچ، وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے چئیرمین نصراللہ بلوچ ، بلوچ یکجہتی کمیٹی کے ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ ، کوئٹہ بار کونسل کے جنرل سیکرٹری چنگیز حئی بلوچ ، نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی کے مرکزی ڈپٹی آرگنائزر سلمان بلوچ ، ایڈوکیٹ عمران بلوچ ، پروفیسر ڈاکٹر منظور بلوچ اور راشدہ حسین کی والدہ نے خیالات کا اظہار کیا ۔
ایڈوکیٹ ایمان مزاری، ایڈوکیٹ کامران مرتضیٰ نے ویڈیو لنک کے ذریعے اپنے خیالات پیش کئے۔
ڈاکٹر ماہ رنگ نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے سامنے جو مائیں بیٹھے ہوئے ہیں اس عمر میں بھی وہ ہم سے زیادہ جدوجہد میں شریک اور جدوجہد کر رہے ہیں ، یہ ہماری ذمہ داری بنتی ہے کہ ہم بغیر کسی لالچ ، بغیر کسی ذاتی اور سیاسی ایجنڈے کے ان ماؤں کے ساتھ مل کر ان کے جگر گوشوں کیلئے یکمشت ہوکر آواز اٹھائیں ۔
ایڈوکیٹ عمران بلوچ نے کہا کہ ایک جانب راشد حسین ، ذاکر مجید اور زاہد کرد، شبیر بلوچ جیسے نوجوان جبری طور پر گمشدہ ہیں ، اور ان کے لواحقین مائیں ، بہنیں اور بیٹیاں تسلسل کے ساتھ اپنے لخت جگر کیلئے ہر فورم پر آواز بلند کر رہے ہیں ،ان کے گھر بھی اجڑ گئے لیکن انہیں سوائے طفل تسلیوں اور کچھ نہیں مل رہا ہے ، دوسری جانب ایسے بہت سے لوگ ہیں کہ جنہوں نے ظاہراً ان لاپتہ افراد کی بازیابی کیلئے اٹھا رہے تھے ان کے کیسوں کیلئے لڑ رہے تھے لیکن ذرا دیکھ لیں کہ وہ کہاں سے کہاں تک پہنچ گئے ، مال دولت سمیت بڑے بڑے سرکاری عہدے بھی ان کو ملے ، ان معاملات پر بھی ہمیں سوچنا ہوگا ۔
نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی کے مرکزی ڈپٹی آرگنائزر سلمان بلوچ نے کہا کہ جبری گمشدگی کے مسئلے کو ہمیں قومی سیاسی جدوجہد کے تناظر میں دیکھنا ہوگا۔ قومی جدوجہد جو قومی شناخت اور تشخص کے لیے ہے، قومی تاریخ ، قومی کلچر کی ترقی، ساحل وسائل کی خوداختیاری کے لیے جدوجہد ہے، تو اس قومی جدوجہد کو کچلنے اور ختم کرنے لیے جبری گمشدگی ایک حربہ ہے۔ جو اس ایک ایسا ماحول پیدا کرنا مقصود ہے جو بطور قومی افراد اپنے قومی جدوجہد سے دست بردار ہو سکیں۔ اس حربے کے ساتھ ساتھ بلوچ قومی سیاسی جدوجہد کو کچلنے کے لیے مارو اور پھینکو پالیسی، سی ٹی ڈی کے ہاتھوں فیک انکاؤنٹر ، پورے بلوچستان میں جرائم پیشہ افراد کو منظم کر کے ایک ایسا ماحول پیدا کرنا جو لوگوں کو عدم تحفظ کا شکار ہوں یا فرقاواریت جیسے حربے اس قومی سیاسی جدوجہد کو دبانے یا کچلنے یا بلوچ سماج کو منتشر کرنے کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں۔
پروفیسر ڈاکٹر منظور بلوچ نے کہا کہ اس طرح کے پروگرامات جب بھی منعقد کیے جاتے ہیں تو جبری گمشدگی کے شکار سب یاد آ جاتے ہیں ، ذاکر مجید ہو ، زاہد بلوچ ہو یا باقی سب ہوں ، سب یاد آ جاتے ہیں ، یہ سب ایک ہیں سب کا درد بھی مشترک ہے ۔ سب کی تکلیف بھی ایک ہے لیکن بات پھر وہی ہے کہ اتنے سارے پارٹیوں اتنے سارے تنظیمیں ہونے کے باوجود مسنگ پرسنز کا مسئلہ جوں کا توں ہے ، چھ نکات پیش کرنے کے باوجود اس پر کوئی عمل درآمد نہیں ہوا ہے ، چھ نکات میں سے ہر کسی بھی نکتے پر عمل در آمد ہوا ہے تو وہ نیشنل ایکشن پلان ، ایک پارٹی نے خود یہ ڈیمانڈ کیا تھا کہ نیشنل ایکشن پلان پر اس کے روح کے مطابق عمل کیا جائے لیکن آج وڈھ کے معاملے پر اس نیشنل ایکشن پلان پر بھرپور عمل درآمد کیا جا رہا ہے ۔
پروگرام کے آخر میں جبری گمشدگی کے شکار راشد حسین کے والدہ نے اپنی خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا میرے بیٹے راشد حسین کو انٹرپول کے ذریعے سے نہیں بلکہ تشدد کر کے جبری گمشدہ کیا گی جس میں دبئی اور پاکستان کی ریاستیں ملوث ہیں۔
انہوں نے کہا میرے بیٹے کی گرفتاری ظاہر کرنے کے باوجود اسے کسی عدالت میں پیش نہ کرنا ہمارے ساتھ ظلم ہے –
انہوں نے کہا گذشتہ پانچ سالوں سے بیٹے کی فریاد لیکر میں انصاف کے لئے بنائے گئے تمام اداروں کے دروازے کھٹکھٹائے لیکن وہاں سے ہمیں انصاف کے بجائے دھتکارا گیا عدالتوں میں مجھے کہا گیا کہ آپ اپنے بیٹے کا کیس واپس لے لیں اور چلیں جائیں-
راشد حسین کی والدہ نے آج راشد حوالے منعقد سیمینار کے آرگنائزر و شرکت کرنے والے مہمانوں کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ بیٹے کی بازیابی کے لئے امیدیں اپنے قوم سے ہے اور ہم امید کرتے ہیں کہ بلوچ قوم بیٹے کی بازیابی میں ہمیشہ ایسے ہی ہمارے آواز بنے رہینگے-