خاران جعلی مقابلے میں قتل تابش بلوچ کے برسی پر ریفرنس کا انعقاد

157

تابش بلوچ کے پہلے برسی کے موقع پر بی ایس او ( پجار ) شال زون کے زیر اہتمام تعزیتی ریفرنس کالج آف ٹیکنالوجی سریاب میں منعقد کی گئی۔ ریفرنس کا آغاز شہداء کی یاد میں 2 منٹ کی خاموشی سے کیا گیا۔

ریفرنس سے مرکزی سینئر وائس چیئرمین بابل ملک بلوچ، سابقہ مرکزی چیئرمین زبیر بلوچ، صوبائی صدر شکیل بلوچ، مرکزی سیکرٹری اطلاعات ادریس بلوچ، سی سی ممبر منصور ایم جے بلوچ و شال زون کے کارکنان نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔

ریفرنس سے خطاب میں سینئر وائس چیئرمین بابل ملک بلوچ سابقہ مرکزی چیئرمین زبیر بلوچ، صوبائی صدر شکیل بلوچ سیکرٹری اطلاعات ادریس بلوچ، منصور بلوچ، اللہ گل بلوچ و دیگر نے کہا کہ آج کے دن تنظیم کے سابقہ زونل صدر وندر تابش وسیم بلوچ کو ماورائے آہین تحویل میں شہید کیا گیا آج اس واقعہ کو ایک سال مکمل ہوگیا لیکن تاحال تابش کے حوالے سے نا کسی ریاستی ادارے نے وضاحت دی اور نا ہی اپنے کارندوں کے خلاف کوئی کارروائی کی جس سے یہ پیغام دیا گیا ہے کے با شعور بلوچ نوجوانوں کے زندگی کی کوئی قیمت نہیں۔

انہوں نے کہا کہ تابش وسیم کے لاپتہ ہونے کے بعد سے تنظیم کے سابقہ ذمہ داران نے ہر فورم پہ آواز اٹھایا لیکن بجائے رہائی کے ہمیں مسخ شدہ لاش دی گئی ، آج جب اسلام آباد ہائی کورٹ کے کمیشن کا رپورٹ آیا ہے اور اس میں یہ بات وضاحت کے ساتھ لکھ دی گئی ہے کے تابش کو تحویل میں شہید کیا گیا تو تابش سمیت سینکڑوں افراد کے ساتھ ریاستی اداروں کے زیادتیوں کو چھپانے کیلئے رپورٹ کو منظر عام پر نہیں لایا جارہا ہم آج بھی اس امر کو دوہراتے ہیں کہ ریاستی سرپرستی میں کام کرنے والے پرائیویٹ ملیشیا کو ختم کرے اور سماج میں ان کو بے نقاب کریں تاکہ ان کی حقیقت اور برائیوں سے سماج کا ہر انسان واقف ہو۔

مقررین نے کہا کہ ایک طرف پورے بلوچستان میں بلوچ قومی وسائل کا بے دریغ استعمال اور استعحصال کی جارہی ہے تو دوسری طرف ان تمام قوتوں کی پشت پناہی کے لئے فوجی آپریشنز جاری ہے ، بلوچ کو ان تمام پراجیکٹس میں نا صرف نظر انداز کیا گیا ہے بلکہ بلوچ کو ان میگا پراجیکٹس کے لئے خطرہ قرار دے کر قتل کیا جارہا ہے۔ ہم اپنے ہی وطن پہ بیگانہ جیسے زندگی بسر کررہے ہیں لیکن ہمارے اوپر ہونے والے مظالم پہ کوئی ادارہ بات کرنے سے قاصر ، سفارش پہ تعینات افراد سے ہمیں انصاف کی توقع نہیں جو محض اپنے دکانداری کے لئے ہمیں دہشتگرد اور باغی کہتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں اس وقت سب سے بڑا مسئلہ لاپتہ افراد کا ہے لیکن اسے آج بھی سنجیدگی سے نہیں لیا جارہا ہے، پچھلے سال جب 52 روزہ دھرنا اختتام پذیر ہوا تو ایک حاضر سروس جج کے سربراہی میں کمشن تشکیل دیا گیا جس کی رپورٹ آج تک خود لاپتہ رہا، نا کوئی انکوائری ہوئی نا کسی کو بلایا گیا، نا کسی سے پوچھا گیا۔ ایسے کمیشن اور ایسے نظام پہ لاکھوں سوالات جواب کے منتظر ہیں، اسی دھرنے میں تابش کا نام وزیر قانون، وزیر داخلہ، وزیر انسانی حقوق و دیگر کو دیا گیا لیکن اس فہرست سے کسی ایک فرد کو رہا نہیں کیا گیا بلکہ تابش اور فرید کو شہید کیا گیا، اگر کمیشن زیارت کے واقعے کی تحقیقات کرتی تو خاران کا واقعہ پیش نہیں آتا۔

مقررین نے کہا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کی جانب سے سردار اختر کے سربراہی میں کمیشن نے جو رپورٹ دی ہے اسے فوری پبلک پراپرٹی بنا کر منظر عام پر لایا جائے اور ان تمام افراد کے خلاف کاروائی ہو جن ریاستی اداروں نے مسلح کیا ہے اور قتل و اغواء کا پرمٹ جاری کیا ہے ایسے عناصر کے بیخ کنی کے بنا امن کا دعویٰ محض ایک کاروباری جنگ کا عندیہ ہے جو شرمندہ تعبیر ہوگا۔

زونل صدر اللہ گل بلوچ، شاہ زیب بلوچ، نعیم بلوچ، عصمت بلوچ نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن ( پجار) برملا اپنے ساتھی تابش وسیم بلوچ کے قتل کو ریاستی قتل قرار دیتا ہیں اور آج کے اس تعزیتی ریفرنس میں اسے سلام پیش کرتا ہے کہ وہ اپنے موقف پر آخری دم تک کھڑے رہے اور پیچھے نہیں ہٹیں، مرنا قبول کیا لیکن قومی جہد سے دستبردار نہیں ہوئے۔

انہوں نے کہا کہ بی ایس او شہید فدا کے فلسفے پر پیروکار ہیں اور اس کا ثبوت شہید وسیم تابش نے اپنے خون سے دیا۔ ہم شہید کو سرخ سلام پیش کرتے ہیں اور عہد کرتے ہیں کے جب تک ہمارے ساتھی کے قاتلوں کو گرفتار نہیں کیا جاتا اور سزا نہیں دی جاتی ہم خاموش نہیں بیٹھے گے۔