حماس فنڈز کیسے جمع کرتی ہے؟

287

اسرائیل کے خلاف لڑنے والی فلسطینی عسکری تنظیم حماس کے پاس موجود وسائل سے متعلق یہی گمان کیا جاتا ہے کہ یہ وسائل خیراتی اداروں اور دوست ممالک کی مرہونِ منت ہیں لیکن حماس اپنا ایک وسیع نیٹ ورک رکھتی ہے۔

رواں ہفتے کے آغاز میں اسرائیلی پولیس نے ایک بیان میں کہا تھا کہ اس نے بارکلے بینک کا ایک اکاؤنٹ منجمد کردیا ہے جو ان کے بقول حماس کی فنڈنگ کے لیے استعمال ہوتا تھا۔

اسرائیلی حکام کا کہنا ہے کہ انہوں نے حماس کو رقوم کی منتقلی کے لیے استعمال ہونے والے کرپٹو کرنسیز کے اکاؤنٹس بلاک کر دیے ہیں تاہم ان اکاؤنٹس کی تعداد، مالیت یا ترسیلات وغیرہ کی تفصیل جاری نہیں کیں۔

انسدادِ دہشت گردی سے متعلق امور کی مہارت رکھنے والے ایک سابق امریکی عہدے دار میتھیو لیوٹ کا کہنا ہے کہ ایک اندازے کے مطابق حماس کا بجٹ 30 کروڑ ڈالر ہے۔ اس کا کچھ حصہ اسے مقامی کاروباری سرگرمیوں پر ٹیکس کی مد میں حاصل ہوتا ہے جب کہ ایران، قطر یا خیراتی اداروں سے حاصل ہونے والی رقوم بھی اس میں شامل ہیں۔

حماس اپنے حامی خیراتی اداروں اور دوست ممالک کا ایک نیٹ ورک رکھتی ہے۔ بین الاقوامی پابندیوں کو چکما دینے کے لیے حماس نقد رقوم کی ترسیل کے لیے اپنی بنائی گئی سرنگوں کے نیٹ ورک کا استعمال کرتی ہے یا پھر کرپٹو کرنسیز میں رقوم وصول کرتی ہے۔

گزشتہ فروری میں امریکہ کے محکمہ خارجہ نے اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ حماس خلیجی ممالک میں فلسطینیوں کے لیے عطیات، بیرونِ ملک بسنے والے فلسطینیوں سے ملنی والی مالی معاونت اور خیراتی اداروں کے ذریعے مالی وسائل جمع کررہی ہے۔

خبر رساں ادارے ‘رائٹرز’ نے حماس کی فنڈنگ سے متعلق مؤقف کے لیے حماس سے رابطہ کیا جس میں اسے کامیابی نہیں ملی۔

تاہم ماضی میں حماس کا مؤقف رہا ہے کہ اسے عطیات دینے والوں پر عائد مالی پابندیاں بنیادی طور پر اسرائیل کے خلاف اس کی جائز مزاحمت کو ختم کرنے کی کوششوں کا حصہ ہے۔

فنڈنگ میں مشکلات اور کرپٹو کرنسیز

امریکہ اور برطانیہ سمیت دیگر ممالک حماس کو دہشت گرد تنظیم قرار دے چکے ہیں جس کی وجہ سے اسے فنڈنگ کے حصول میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

عالمی مالیاتی پابندیوں سے بچنے کے لیے گزشتہ چند برسوں کے دوران حماس نے کرپٹور کرنسیز، کریڈٹ کارڈز اور جعلی کاروباری معاہدوں کے ذریعے فنڈز جمع کرنے پر انحصار بڑھا دیا ہے۔

کرپٹو کرنسی کے لیے استعمال ہونے والی بلاک چین ٹیکنالوجی پر تحقیق کرنے والے ادارے ایلپٹک کے شریک بانی ٹام روبنسن کا کہنا ہے کہ حماس دہشت گردی کے لیے کرپٹو کرنسی کا کامیاب ترین استعمال کرنے والوں میں شامل ہے۔

تاہم رواں برس حماس نے کہا تھا کہ کئی سودوں میں نقصانات کے بعد اس نے کرپٹو کرنسیز میں سرمایہ کاری ترک کردی ہے۔

واضح رہے کہ کرپٹو کرنسی میں ہونے والی ترسیلات کا سراغ لگایا جاسکتا ہے۔

بلاک چین پر تحقیق کرنے والے ادارے ٹی آر ایم لیب کے مطابق گزشتہ ہفتے حماس کے اسرائیل پر حملوں کے بعد کرپٹو کے ذریعے عطیات جمع کرنے میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔

ٹی آر ایم لیب کا کہنا ہے کہ مئی 2021 میں شروع ہونے والی جھڑپوں کے بعد حماس کے زیرِ استعمال کرپٹو ایڈریسز کو چار لاکھ ڈالر سے زائد فنڈ موصول ہوئے تھے۔ اس ادارے کے مطابق گزشتہ ہفتے کی کارروائی سے قبل حماس کی مدد کرنے والے گروپ نے کرپٹو کے ذریعے چند ہزار ڈالر ہی منتقل کیے تھے۔

ٹی آر ایم لیب کے مطابق کرپٹو میں کم فنڈنگ کی ایک وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ اسرائیلی حکام حماس کے اکاؤنٹس کو تیزی سے نشانہ بنا رہے ہیں اور حالیہ برسوں میں حماس سے متعلقہ اکاؤنٹس سے لاکھوں ڈالر ضبط کیے جا چکے ہیں۔

دسمبر 2021 سے رواں برس اپریل کے درمیان اسرائیل نے حماس سے متعلق لگ بھگ 190 کرپٹو اکاؤنٹس ضبط کیے ہیں۔

راستے کیا ہیں؟

کرپٹو ہو یا کوئی اور راستہ، حماس کے اتحادیوں نے غزہ میں نقد رقوم پہنچانے کے کئی طریقے بنا لیے ہیں۔ امریکی محکمۂ خارجہ اپنی ایک رپورٹ میں بتا چکا ہے کہ ایران ہر سال حماس سمیت فلسطینی گروپس کو دس کروڑ ڈالر پہنچاتا ہے۔

رپورٹ کے مطابق یہ رقم شیل کمپنیوں، بحری راستوں اور قیمتی دھاتوں کے ذریعے پہنچائی جاتی ہے۔ ایرانی حکام نے امریکی محکمۂ خارجہ کی رپورٹ پر ردِعمل ظاہر نہیں کیا ہے۔

امریکہ کے محکمۂ خزانہ نے مئی 2022 میں ایسی متعدد کمپنیوں پر پابندی عائد کی تھی جو ترکیہ سے سعودی عرب تک حماس کے بنائے گئے فنڈنگ نیٹ ورک کا حصہ تھیں۔ حماس ان کمپنیوں میں سرمایہ کاری کے ذریعے 50 کروڑ ڈالرز کے فنڈز حاصل کررہی تھی۔

اسرائیل کا دیرینہ الزام ہے کہ ایران کی حکومت حماس کو وسائل اور ہتھیار فراہم کرکے خطے میں تشدد کو فروغ دے رہی ہے۔ تاہم اسرائیل کو تسلیم نہ کرنے والی ایرانی حکومت کا مؤقف ہے کہ وہ اس گروپ کو مالی اور اخلاقی مدد فراہم کرتی ہے۔

ایران میں 1979 کے انقلاب کے بعد قائم ہونے والی مذہبی حکومت فلسطینیوں کی حمایت کو اپنے وجود کے جواز کے طور پر بھی پیش کرتی ہے۔

اس کے علاوہ گیس کے وسائل سے مالا مال قطر 2014 سے غزہ کو لاکھوں ڈالر امداد فراہم کر چکا ہے۔ ایک موقع پر قطر ،حماس کے زیرِ انتظام غزہ کا واحد بجلی گھر چلانے، ضرورت مند افراد کی مدد اور حکومتی اہل کاروں کی تنخواہوں کے لیے تین کروڑ ڈالر ماہانہ فراہم کر رہا تھا۔

ایک قطری عہدے دار کے مطابق قطری مدد سے انتہائی غریب فلسطینی خاندانوں کو سو ڈالر ملتے تھے اور اسی امداد کی وجہ سے غزہ میں دن کے اوقات میں بھی بجلی بحال رہتی تھی۔

قطر اس اعتبار سے سفارتی پالیسی میں ایک طرح تنی ہوئی رسی پر چل رہا ہےکہ خطے میں سب سے زیادہ امریکی فوج بھی اس کے ملک میں ہے جب کہ وہ ثالثی کے لیے طالبان اور دیگر گروپس کو سرگرمیوں کی اجازت بھی دیتا ہے۔

ضابطے کیا ہیں؟

خبر رساں ادارے ‘رائٹرز’ کے ذرائع کے مطابق غزہ کے لیے قطر کی فنڈنگ در اصل اسرائیل سے گزر کر جاتی ہے۔ یہ فنڈز پہلے ایک الیکٹرانک ٹرانزیکشن کے ذریعے قطر سے اسرائیل منتقل ہوتے ہیں۔ جہاں سے اسرائیل اور اقوامِ متحدہ کے عہدے دار نقد رقم کی صورت میں اسے غزہ کی سرحد تک پہنچاتے ہیں۔

اس کے بعد یہ نقد رقم غزہ کے ضرورت مند خاندانوں یا افراد اور سرکاری ملازمین میں تقسیم کی جاتی ہے۔ رقم وصول کرنے والوں سے دستخط کروا کر اس رقم کی رسید بھی لی جاتی ہے۔

رقم کی تقسیم کے بعد دستخط شدہ فہرست کی ایک ایک نقل اسرائیل، اقوامِ متحدہ اور قطر تینوں کو فراہم کی جاتی ہے۔

قطری حکومت کے عہدے دار کے مطابق غزہ کی پٹی کے لیے ان کے ملک کی جانب سے بھیجی جانے والی امداد اسرائیل، اقوامِ متحدہ اور امریکہ کے تعاون سے پہنچائی جاتی ہے۔

حالیہ برسوں میں قطر نے غزہ کے واحد بجلی گھر کے لیے اسرائیل کے ذریعے ایندھن کی فراہمی شروع کی تھی۔ قطر غزہ میں مصر سے ایندھن بھی بھیجتا ہے جسے حماس تنخواہوں کی ادائیگی کے لیے دوبارہ فروخت کر سکتی ہے۔

تھنک ٹینک رائل یونائیٹڈ سروس انسٹی ٹیوٹ سے تعلق رکھنے والے اسٹیفن ریمر کا کہنا ہے کہ اسرائیل پر حالیہ حملے کے بعد حماس کے لیے رسمی مالیاتی چینل محدود کرنے سے زیادہ کامیابی نہیں ملے گی۔ ان کے بقول حماس ان پابندیوں سے بچ نکلنے میں زیادہ مہارت رکھتی ہے۔