جامعہ تربت انتظامیہ نے کتاب اسٹائل قائم کرنے پر طلباء کی پروفائلنگ کرکے ہراساں کیا – بساک

164

بلوچ اسٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی تربت یونیورسٹی کے رہنماؤں نے بدھ کے روز پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہاکہ یونیورسٹی ایڈمنسٹریٹو اور اکیڈمک حوالے سے زبوں حالی کا شکار ہے ۔ یہاں کرپشن اور گروپوں لابینگ کی نمایاں اثرات دیکھنے کو ملتی ہیں ۔ دوسری جانب یونیورسٹی انتظامیہ اپنی کرپشن کو جاری رکھنے کے لئے طلباء سیاست کے خلاف منفی بیانیہ لانے کی کوشش کررہا ہے ۔ اس بیانیہ میں یونیورسٹی ہاسٹل میں طلباء کو تھریٹ کرنا ، طلباء کو پیپروں میں فیل کرنے کی دھمکی دینا، ڈیپارمنٹ میں طلباء کے ساتھ ملاقات میں انہیں سیاسی سرگرمیوں سے دور رکھنے کے لئے کوشش کی جارہی ہے ۔ بطور طلباء تنظیم ہم اس طرح کے علم دشمن رویوں پر پریشان ہیں کہ ہمیں کیوں اسٹڈی سرکل سے دور رکھنے کی کوشش کی جارہی ہے ۔ یونیورسٹی کو ہمارے ساتھ مکالمہ کرنا چاہیے بجائے اس کے الٹا ہمیں قصوروار ٹھرایا جارہا ہے ۔ کتاب اسٹال میں طلباء کی ہراسمنٹ اور پروفائلنگ کرنے کی کوشش کرنا اور آج ایڈمیشن کیمپ کو سبوتاژ کرنے کی کوشش کی گئی ، تنظیم کے حیثیت سے ہماری یہ کوشش رہی ہے کہ طلباء کی صحیح طریقے سے کیرئیر کونسلنگ اور انہیں مشکلات سے دور رکھنے کے لئے جدوجہد کی جائے ، اس سلسلے کے تحت تنظیم کے جانب سے ایڈمشن کیمپ کا انعقاد کیا گیا ،ایڈمیشن کیمپ کا انعقاد ہر یونیورسٹی میں کی جاتی ہے لیکن تربت انتظامیہ کے جانب سے انہیں روکنا باعث تشویشناک ہے ۔ یونیورسٹی انتظامیہ کی ان آمرانہ سرگرمیوں کی وجہ سے اگر کسی طلباء کو کوئی نقصان پہنچتا ہے تو یونیورسٹی انتظامہ اس کی جوابدہ ہے آج کے پریس کانفرنس کی توسط سے ہم تربت یونیورسٹی انتظامیہ کو یہ برملا کہنا چاہتے ہیں کہ اگر وہ طلبا کی ہراسمنٹ، پروفائلنگ، سیاسی سرگرمیوں کو روکنے، ہاسٹل سے بے دخل کرنے اور والدین کو ڈسلپنری کمیٹئ کے نام پہ تذلیل کرنے سے باز نہیں آتا تو تنظیم سخت احتجاجی طریقہ اپنانے کی طاقت رکھتی ہے ۔

‎طلبا نے کہا کہ اس سے پہلے بھی ہمارے تنظیمی سرکل پر انتظامیہ کے جانب سے دھاوا بولا گیا ، طلبا کو سیاسی سرگرمیوں سے باز رکھنے کیلیے کئی نوٹسز بیجھے گئے ہیں، لیکن اب بلوچ نوجوان اس حد تک باشعور ہے کہ انہیں کال کے زریعے سیاسی سرگرمیاں سے دور رکھنے کی کوشش انتظامیہ کے خام خیالی ہے ، استاد کے جانب سے طلباء کو پیپر میں فیل کرنے کی دھکمی دینا خود ان کی شعبہ کے ساتھ بددیانتی ہے ہم انتظامیہ اور اساتذہ کی ان تمام طلبا دشمن سرگرمیوں کو قوم دشمن پالیسیوں کی تسلسل سمجھتے ہیں۔

انکا کہنا تھاکہ چوبیس اکتوبر کو تنظیم کی جانب سے نئے آنے والے طلبا ء کے لیے اڈمیشن کیمپ منعقد کرنے کرنے کا اعلان کیا گیا جس میں دور دراز کے آئے ہوئے طلبا و طالبات کی رہنمائی کر سکیں جہاں انہیں کسی فارم یا دوسرے پروسس میں جتنا ہوسکے ہم مدد کرسکیں اور انہیں مختلف ڈیپارٹمنٹوں کے بارے میں بتا سکیں۔اسی تسلسل کو لیکر ہم نے صبح دس بجے کیمپ کو یونیورسٹی کے اڈمیشن سیل کے سامنے منعقد کیا تاکہ دور دراز کے طلبہ و طالبات گیٹ کے سامنے ہمیں دیکھ کر مدد لینے میں آسانی ہوجائے۔ یونیورسٹی آف تربت کے اڈمنسٹریشن کی طرف سے ایک پیغام آیا کہ یہ کیمپ یہاں سے ہٹادو اور بازار جاکر وہاں قائم کرو تو ہم نے جواب میں کہا کہ ایڈمیشن یہاں ہورہے ہیں ہم بازار جاکر کیا کرینگے تو انہوں نے دھمکی کے لہجے میں بولا اگر کچھ ہوجائے تو اسکے زمہ دار تم لوگ خود ہونگے اور اس کے علاوہ انہوں نے ہمارے ایچ او ڈیز کو بلا کر ہمیں ایموشنل بلیک میل کیا کہ اگر تم لوگوں نے ہماری بات نہیں مانی تو اس کا مطلب ہے تمہیں اپنے استادوں کا احترام کرنا نہیں آتا۔ اسی تسلسل کو برقرار رکھتے ہوئے سیکورٹی چیف نے آکر ہمارے تصویریں نکالی اور بتایا کہ اگر یہاں سے نہیں ہٹے تو آپ کا ایڈمیشن کینسل ہوسکتا ہے اور یہاں سے فارغ بھی کیے جائینگے اس کے باوجود ہم بیٹھے رہے تو دوسرے دن صبح کے وقت چھت پر لگے ہوئے ٹینکی کو پانی بھرا جس کا دوسرا پائپ ہمارے سر کے اوپر تھا وہاں سے ہمارے کرسی، ٹیبل اور دوسرے ضروری اشیا پر پانی پھیرا گیا جس کی وجہ سے بہت کاغذات خراب ہوگئے جو پھر بنانے پڑے اور انہوں نے ہمارے دوستوں کےگھروں پر فون کرکے انکے فیملی کو غلط بیانیہ دیا کہ تمھارے بچے یہاں دہشت پھیلا رہے ہیں جس کی وجہ سے انہیں یونیورسٹی اور ہاسٹل سے نکال دینگے۔

طلبا نے کہاکہ یونیورسٹی انتظامیہ کے یہ تمام طلبا دشمن رویے آج کے پریس کانفرنس کے توسط سے ہم ان حکام بالا اور بلوچ عوام تک پہنچائے ہیں۔ ہم بلوچ عوام اور طلبہ طالبات کو یہ یقین دھانی کراتے ہیں کہ بلوچ سٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی بلوچ طلبا کی تعلیمی حقوق، سیاسی و سماجی تربیت اور تعلیمی اداروں میں جاری طلبا دشمن پالیسیوں کے خلاف اپنی جدوجہد جاری رکھے گی۔ تربت یونیورسٹی ہو یا کوئی اور ادارہ، ہم اپنے سیاسی حق کیلیے ان کے خلاف مزاحمت کریں گے اور کسی بھی صورت اپنے سیاسی اور تعلیمی جدوجہد سے دستبردار نہیں ہوں گئے