جامعہ بلوچستان سے جبری لاپتہ سہیل و فصیح کے بازیابی کیلئے آگاہی مہم چلائینگے – بلوچ وائس فار جسٹس

167

بلوچ وائس فار جسٹس نے بلوچ طالب علم سہیل بلوچ اور فصیح بلوچ کی بازیابی کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ 2 سال قبل یکم نومبر 2021 کو دونوں طالب علموں کو بلوچستان یونیورسٹی سے پاکستانی فورسز ایف سی و خفیہ داروں نے حراست میں لے کر لاپتہ کردیا تھا اور ان کی جبری گمشدگی کے خلاف بلوچ طلباء تنظیموں نے طویل احتجاجی دھرنا اور تحریک چلائی تھی، اس دور کے حکومت وزراء اور اپوزیشن اراکین نے طلباء سے مذاکرات کرکے سہیل اور فصیح کی بازیابی کا یقین دہانی کراتے ہوئے احتجاج کو ختم کروایا تھا۔

بیان میں کہا گیا کہ اب 2 سال مکمل ہورہے ہیں لیکن دونوں طلباء علم بازیاب نہیں ہوسکے، مذاکراتی کمیٹی میں شامل اس دور کے حکومتی وزراء اور اپوزیشن اراکین جوابدہ ہے وہ بتائیں کہ انہوں نے احتجاج ختم کروایا تھا اور یقین دہانی کرائی تھی کہ سہیل او فصیح کو کچھ روز میں بازیاب کیا جائے گا وہ کیوں بازیاب نہیں ہوئے اور وی سی سمیت یونیورسٹی انتظامیہ سہیل اور فصیح کی جبری گمشدگی کا ذ دار ہے۔

بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ سہیل اور فصیح کی جبری گمشدگی کو 2 سال مکمل ہونے پر یکم نومبر 2023 کو بلوچ وائس فار جسٹس سوشل میڈیا کے تمام پلیٹ فارمز بشمول ایکس میں ایک مہم چلائے گی اس سلسلے میں تمام سوشل میڈیا ایکٹوسٹس طلباء و طالبات سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ اپنی ویڈیوز ریکارڈ کرکے سہیل اور فصیح کی جبری گمشدگی اور بلوچستان میں طلباء و طالبات کو درپیش ریاستی جبر و ہراسگی کے متعلق آواز اُٹھائیں اور تعلیمی اداروں میں طلباء کو ریاستی اداروں کی جانب سے ہراسگی کا نشانہ بنانے کے حوالے سے دنیا کو آگاہی دیں۔

بیان میں تمام بلوچ و پشتون طلباء تنظیموں، سیاسی جماعتوں، سماجی شخصیات، صحافی حضرات، وکلاء برادری، سوشل میڈیا ایکٹوسٹسں سمیت زندگی کے دیگر تمام شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد سے اپیل کی گئی ہے کہ وہ سوشل میڈیا مہم میں شامل ہوکر بلوچ طلباء سہیل و فصیح بلوچ کی جبری گمشدگی کے خلاف احتجاج ریکارڈ کروائیں اور ان کی باحفاظت بازیابی کے لئے آواز اٹھائیں۔

خیال رہے گذشتہ روز سفر علی بلوچ کی جبری گمشدگی کو آج 10 سال طویل عرصہ مکمل ہونے پر سماجی رابطوں کی سائٹ پر بلوچ وائس فار جسٹس کی جانب سے آگاہی مہم چلائی گئی۔

آواران کے رہائشی سفر علی 10 سال قبل 23 اکتوبر 2013 کو بلوچستان کے صنعتی شہر حب چوکی سے حراست میں لے کر لاپتہ کردیا گیا تھا، جو تاحال لاپتہ ہیں۔

بلوچ وائس فار جسٹس بیان میں کہا گیا ہے کہ سفر علی کو دس سال قبل ریاستی اداروں نے حب چوکی سے غیر قانونی حراست میں لے جبری لاپتہ کیا تھا اور ان 10 سالوں میں ان کے خاندان نے انصاف کی حصول اور سفر علی بازیابی کے لئے عدلیہ اور لاپتہ افراد کمیشن سمیت تمام دروازوں کو کھٹکھٹائے لیکن اُن کا انصاف میسر نہیں ہوئی اور نہ ہی انہیں کوئی معلومات فراہم کی گئی کہ سفر علی کو کس جرم میں اٹھایا گیا ہے۔

بیان میں کہا گیا کہ سفر علی کے خاندان نے دیگر لواحقین کے ساتھ ریڈ زون میں 50 دنوں تک احتجاج پر بیٹھے رہیں، اُس دور کے وفاقی وزراء نے ایک معاہدہ کرکے ریڈ زون احتجاج کو ختم کروایا کہ دو ماہ میں لاپتہ افراد کو بازیاب کیے جائینگے لیکن وزراء کا وہ وعدہ بھی وفا نہیں ہوا اور سفر علی سمیت کوئی ایک بھی لاپتہ فرد بازیاب نہیں ہوسکا۔