تحریکوں میں ناگزیر جنگی فیصلے اور بلوچ انسرجنسی کے تقاضے ۔ کمبر بلوچ

881

تحریکوں میں ناگزیر جنگی فیصلے اور بلوچ انسرجنسی کے تقاضے 

تحریر: کمبر بلوچ 

دی بلوچستان پوسٹ

قومی جنگوں کی اپنی ایک دستور ہوتی ہے، جو کبھی سامراجیت کے ضوابط کے تابع نہیں رہی ہے۔ استعماریت کے خلاف جنگوں میں نام نہاد سامراجی اخلاقیات ؤ روایات نہیں بلکہ وقت سے ہم آہنگ جنگی حکمت عملیاں فتح و شکست کا تعین کرتے ہیں۔

بلوچ تحریک آزادی کے سرخیل سردار خیر بخش مری اور شیر محمد مری نے ساٹھ کی دہائی میں پیپلز لبریشن وار کی طرز پر کوہستان مری میں بلوچستان پیپلز لبریشن فرنٹ کی پراری کیمپوں کا جال بچھا کر بلوچ انسرجنسی کی بنیاد رکھی جو مارکسسٹ-لیننسٹ فکر سے وابستہ تھا۔

بلوچ انسرجنسی کے حالیہ اُبھار سے پہلے خیر بخش مری نے اپنے فکری سرکل میں بحث کا آغاز کیا کہ دنیا کے تحریکوں میں فدائی حملوں کی حکمت عملی اپنائی جارہی ہے, کیا بلوچ جنگ میں بھی فدائی حملوں کا انتہائی قدم اپنایا جاسکتا ہے؟ یہ بحث بلوچ تحریک میں فدائی حملوں کے اِحیاء کا بنیاد بنا۔

بلوچ جنگِ آزادی میں درویش بلوچ نے دو ہزار دس کو فدائی حملوں کا آغاز کیا تھا اور دو ہزار اٹھارہ میں قومی تحریک کے اہم موڑ پر فدائی حملوں کا بڑے پیمانے پر سلسلہ شروع ہوا۔ اِن حملوں کو جنگ کے نئے حکمت عملیوں میں شمار کیا گیا لیکن تحریک کے ایک حلقے نے بالعموم فدائی حملے اور بلخصوص کراچی میں شاری بلوچ کی چینیوں پر حملے کے بعد خواتین کے فدائی حملوں کو انتہا پسندی سے منسوب کیا گیا، لیکن اِن حملوں کی تاریخ سے اُن کی بنیاد کے نشانات ترقی پسند سوچ سے منسلک اداروں سے ملتے ہیں۔

جنگی تاریخ میں خواتین کا پہلا فدائی حملہ انیس سو پچاسی میں سیکولر اور ترقی پسند جماعت سیرین سوشلسٹ نیشنلسٹ پارٹی کے صنعاء مہدقلی نے جنوبی لبنان کے شہر جیزین میں اسرائیلی استعماری فوج کے قافلے پر کار بم دھماکہ کرکے کیا۔ سیرین سوشلسٹ نیشنلسٹ پارٹی کے بارہ فدائی حملوں میں سے پانچ حملے خواتین نے کئے تھے۔

راجارتنم اسکول آف انٹرنیشنل اسٹڈیز میں سیکیورٹی اسٹڈیز کے پروفیسر روہن گونارتنا کے مطابق فدائی حملوں میں تیس فیصد خواتین نے کئے ہیں، جِن میں زیادہ تر کا تعلق سیکولر باغی تنظیموں لبریشن ٹائیگرز آف تامل ایلم (LTTE) اور کردستان ورکرز پارٹی (PKK) سے ہے۔ تامل اور چیچن گوریلوں کے خواتیں فدائین اسکواڈ تھے جو بلیک ٹائیگرز ( Tamil : Black tigers ) اور بلیک ویڈوز ( Chechens : Black Widows ) کے نام سے جانے جاتے ہیں۔

ویلوپلائی پربھاکرن نے تامل سماج کے جبر تلے پسے ہوئے طبقات کو سخت تنظیمی نظم ؤ ضبط کا پابند بناکر فدائی ؤ پیچیدہ حملوں کے جال کو پورے سری لنکا میں پھیلا دیا اور لنکن فوج کو دفاعی پوزیشن پر دھکیل کر تامل ٹائیگرز کے محفوظ آزاد علاقے قائم کئے۔ عارضی شکست سے قطع نظر لبریشن ٹائیگرز کی جنگی ہنر کو کامیابی سے عملی جامہ پہنانے نے انہیں استعماریت کے خلاف جنگی تاریخ میں اہم مقام عطا کیا۔

کردستان ورکر پارٹی کے روح رواں عبداللہ اوجلان کا موقف ہے کہ جمہوریت، انصاف و برابری سب سے پہلے اپنے سماج میں پیدا ہونی چاہیے اور خواتین کی آزادی کے بغیر کردش سماج کی آزادی ممکن نہیں ہے۔ اوجلان کے سماجی برابری کے افکار نے کرد خواتین کو مسلح جدوجہد سے منسلک کیا جس سے سینکڑوں خواتین نے پہاڑوں کا رخ کرکے مسلح جدوجہد کا راستہ اپنایا اور تیس سالوں سے مردوں کے شانہ بشانہ مسلح جدوجہد کا حصہ ہیں۔

30جون 1996ء کو خاتون گوریلہ زینپ کناسی ( Zenyap kinaci ) نے ترک علاقے تونسیلی میں آرمی پریڈ پر فدائی حملہ کرکے کردستان ورکر پارٹی میں فدائی حملوں کی بنیاد رکھی۔ کردش جنگجوؤں کے پچیس سے زائد فدائی حملوں میں اکثریت کرد خواتین نے کر کے اِن میں اہم ترین کردار ادا کیا۔ فدائین نے آزادی کی جنگ کو کردستان کے پہاڑوں سے ترکی کے شہروں میں منتقل کرنے کے لئے نہ صرف فوجی تنصیبات کو نشانا بنایا بلکہ انقرہ اور استنبول میں سیاحتی ؤ معاشی مراکز پر بھی حملے کئے۔

خواتین جنگجو اور فدائین اسرائیلی استعماریت کے خلاف جدوجہد کا اہم حصہ ہیں، فلسطینی خواتین مسلسل اپنے اعمال پر دلائل دیتی رہی ہیں کہ فلسطینی مائیں صرف شہداء کی مائیں بننے کے لئے پیدا نہیں ہوئے بلکہ وہ آزادی کی تاریخ اپنے خون سے لکھیں گی اور اپارتھائیڈ ریاست کے سامنے مزاحمت کا علمبردار بنیں گے۔

شاری نے فلسطینی ماؤں کے نقش قدم پر چلتے ہوئے صرف شہید کی ماں اور بیوی بننے کے بجائے چین کی توسیع پسندانہ عزائم کا راستہ روکنے کے لئے فدائی حملہ کرکے سامراجیت کے خلاف مزاحمت کا استعارہ بن کر بلوچ جنگی داستانوں میں ایک قابل تقلید باب کا اضافہ کیا ہے۔

آزادی اور انقلابی تحریکوں میں ترقی پسند اداروں نے جنگوں میں نئے رجحانات متعارف کرکے جنگی حکمت عملیوں کو نئی جہت بخشی ہے، جس طرح ولادمیر لینن نے 1904میں گوریلا جنگ کی اہمیت، افادیت اور نفسیات پر مقالہ میں لکھا کہ ماکسزم کے فلسفے پر عمل کرنے والے انقلابی تاریخ کا معروضی تجزیہ کرکے بدلتے سماجی و سیاسی حالات کے ساتھ جنگ کے طریقے بھی بدلتے رہتے ہیں۔ ماکسزم کا فلسفہ انقلاب میں ہرقسم کے جنگ کو ناگزیر سمجھتا ہے اور انقلابی اس فرق کو جانتے ہیں کہ انقلاب کی جارحیت مجرمانہ نہیں سیاسی ہے۔

نیشنل لبریشن فرنٹ کی الجزائر کے شہروں میں فرانس کی استعماری اشرافیہ پر حملے، ویتنام میں امریکہ اور جنوبی ویتنامی فوج پر ویٹ کانگ کی ٹیٹ ہوپنسز ( Tet Offensive )، جارج عباش کے پاپولر لبریشن فرنٹ آف فلسطین کی اسرائیلی جہازوں کو ہائی جیک کرنا، آئرش ریپبلکن آرمی کی برطانوی اسٹاک ایکسچینج پر حملہ، چیچن بلیک ویڈوز کی روس کے شہروں میں فدائی حملے اور کردش ؤ تامل فدائین کی جنگ کو جنگلوں اور پہاڑوں سے نکال کر دشمن کے شہروں تک وسعت دینے جیسے حکمت عملیوں نے گوریلا جنگوں کو نئی جہت بخشی اور استعماری طاقتوں کو شکست دینے ؤ انقلابی تحریکوں کی کامیابی میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ اِن تحریکوں میں کچھ عارضی شکست سے دوچار ہوئے ہیں اور کچھ جاری ہیں لیکن اِن جنگی حربوں نے فنِ جنگ میں نئے در کھولے ہیں۔

اکیسویں صدی میں بلوچ انسرجنسی کی اِحیا کے وقت امریکہ یک قطبی دنیا کا تھانیدار تھا، روس سویت یونین کے انہدام سے سنبھلا نہیں تھا، چین کی معیشت ارتقائی مراحل سے گزر رہا تھا، ایران کے قدم امریکی پابندیوں سے ڈگمگا رہے تھے اور افغانستان پر زور آزمائی کے بعد امریکہ مشرق وسطی میں صدام حسین سے برسرپیکار تھا۔ پاکستان وار آن ٹیرر کے نام پر امریکی کیمپ سے منسلک تھا۔

دو دہائی کی طالع آزمائی کے بعد دنیا کئی طاقتوں میں بٹ چکا ہے، امریکی تھانیداری قصہ پارینہ بن رہا ہے اور روس عالمی نظام میں اپنے مرتبت کے لیے کوشاں ہے جس سے ایشیا، افریقہ اور مشرقی یورپ میں نئی سرد جنگ کی تپش محسوس کی جاسکتی ہے۔ چین مضبوط معیشیت کے ساتھ سامراجیت کے راستے پر گامزن ہو کر نئے اتحادیں تشکیل دے رہا ہے، ایران اپنے قدم جمانے کے بعد خطے کا اہم کھلاڑی بن چکا ہے اور افغانستان میں امریکہ کی شکست ؤ ریخت کے بعد طالبان برسر اقتدار ہیں۔ پاکستان چینی کیمپ میں براجمان ہوکر بلوچستان میں اُس کی توسیع پسندانہ عزائم میں ہمرکاب ہے اور امریکہ سے بھی شراکت داری کا طلبگار ہے۔

بیس سال میں کھٹن آزما مراحل سے گرز کر بلوچ انسرجنسی منزل کی حصول لئے قدم بڑھا رہا ہے۔ پاکستان بھی اِن سالوں میں بلوچ جنگِ کو ختم کرنے کے ارادے لئے کثیر الجہتی پالیسیاں بناکر بلوچ انسرجنسی کو شہروں سے پرے دھکیلنے میں کامیاب رہا ہے اور چین ؤ ترکی کی مدد سے ڈرون ٹیکنالوجی کے زریعے پہاڑوں کے محفوط پناہ گاہوں میں بھی بلوچ جنگجوؤں کے مشکلات میں اضافہ کرکے انہیں نقصان سے دوچار کررہا ہے۔ پاکستان کی تسلط اور چین کی توسیع پسندی کو روکنے کے لئے بلوچ انسرجنسی کو جس شدت اور جدت کی ضرورت ہے وہ مفقود ہے۔

جدید دور میں کلاسیکی گوریلا جنگی حربوں اور بکھری ہوئی طاقت کے ذریعے چین کی سامراجی عزائم کا راستہ نہیں روکا جا سکتا ہے۔ تحریک کی پالیسیاں دنیا کے قانونی ضابطوں کے پابند نہیں کئے جاسکتے ہیں بلکہ وقت ؤ حالات کے تقاضوں کے بنیاد پر فیصلے لئے جاتے ہیں۔ استعمار کے خاتمے کے لئے محکوم اقوام کے آزادی کی تحریکوں میں فدائی ؤ کمپلکس اٹیک غیر روایتی جنگی حکمت عملیوں کا حصہ رہے ہیں۔ دنیا کی تحریکوں کے فنِ حرب کی تقلید کرکے قومی ادارے اپنے جنگی حکمت عملیوں میں جدت ؤ شدت لاکر بلوچ انسرجنسی کو پاکستان کے شہری ؤ معاشی مراکز تک وسعت دے کر اُن کے خلاف نئے محاذ کھول کر اپنے جنگی منبع محفوط رکھ سکتے ہیں۔

بلوچ قومی جہد میں نئے رجحانات کے علمبردار زندہ رہنے کی تلقین کرنے لگیں تو سخت فیصلے لینے سے گریز کا رجحان جنم لے گا۔ مسلح تنظیمی قیادت کا اہم ترین فیصلوں میں مرکزیت کا فقدان بلوچ تحریک آزادی کے لئے نیک شگون نہیں ہے۔ احساسات ؤ جزبات سے مغلوب ہوکر انفرادی واقعات کو اجتماعیت کا لبادہ پہنا کر نہیں بلکہ معروضی حالات کے ٹھوس تجزیے کو بنیاد بناکر جنگی فیصلے لئے جاتے ہیں ۔

خطے کے ممالک اپنا قبلہ بدل رہے ہیں اور ہمسایہ ممالک کی نئی صف بندیوں کے بعد تیزی سے بدلتے حالات دشمن کے حق میں جارہے ہیں۔ دنیا بلوچ جنگ کو کس نظر سے دیکھے گی جیسے تاویلات دینے کے بجائے ؤقت ؤ حالات کا ادراک کرتے ہوئے بلوچ قومی قیادت کو جدوجہد کے تقاضوں کو مدنظر رکھ کر سخت جنگی فیصلے لینے ہونگے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔