بی ایس او میں مداخلت، موقع پرستی اور تنظیم پر مفی اثرات – شاویز بلوچ

255

بی ایس او میں مداخلت، موقع پرستی اور تنظیم پر مفی اثرات 

تحریر: شاویز بلوچ 

دی بلوچستان پوسٹ

بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کی عظیم نام جوکہ صرف شہداء کی قربانیوں قومی سیاست میں حقیقی عمل کی طرف گامزن کرنے و سیاسی عمل میں فکری شعور کی راہ دینے کا نام ہے ۔ بی ایس او کی تاریخ کو اگر دیکھا جائے تو قیام سے لیکر اب تک بی ایس او کے نام پر ایک تنظیمی اسٹرکچر یا سنگل بی ایس او بہت ہی کم عرصے تک قائم رہی یے لیکن پھر بھی مشکل حالات تنظیمی بحرانوں یا دھڑے بندی کے باوجود بی ایس او کی کوئی بھی مضبوط شکل ہی عوامی و تحریکی سیاست میں بنیاد کا کردار ادا کرتی آرہی ہے ۔

بلوچ سیاست کی خوش قسمتی یہی رہی یے کہ ایک آزاد یا خومختیار رائے جب بھی سیاسی عمل کو ملی تو وہ بی ایس او کے پلیٹ فارم سے ملی یا کوئی رد سیاست عمل کی حوصلہ شکنی ہوئی تو وہ کردار بی ایس او کے کسی کارکن کا یہی رہا ہے مطلب بی ایس او بیک وقت سیاست پر تنقیدی سوچ رکھنے،اسکو شخصی پیداوار دینے یا کوئی قومی سیاسی عمل کے لئے بنیاد فراہم کرنے یہاں تک ادبی و تعلیمی تحقیقی فورم رہا ہے۔لیکن بدقسمتی سے بی ایس او کی ہرسطح کے کارکن و کیڈر کی ساتھ دینے والا اسکو سپورٹ کرنے کا والا بلوچ سیاست کے دوسرے اجزاء کے ہونے کے باوجود کوئی نہ رہا ہے ۔بی ایس او کے کارکن ہمیشہ ہر مسئلے پر صف اول کا کردار ادا کرتے رہے ہے لیکن کسی بھی مشکل وقت میں بی ایس او کو دلاسوں کے علاوہ کوئی خاص توجہ نہ مل سکی ہے۔

ہاں یہ بات ہے کہ بی ایس او کو ایک ونگ کے طور پر چلانے کی کوشش مختلف ادوار میں جاری رہی یے یہ عمل محض عہدوں پر من پسند لوگوں کو لانے تک کی عمل تک ہوا یے لیکن عملی طور پر سیاسی جماعتوں کے لئے بی ایس او کی بنیاد و اسکی تنظیمی اسٹرکچرکبھی بھی ونگ بننے کی اجازت نہیں دے سکی یے یہی وجہ ہے کہ کسی بھی غیر آئینی تقسیم یا غیر آئینی عمل کے نتیجے میں گروہ تشکیل دے کر انہیں ونگ کی طرح کی چلانے کی کوشش کی گئی جسکی سب سے زیادہ نقصان عام طالب علم کو بی ایس او یا بلوچ سیاست سے دوری کا ہوا ہے یہی وجہ یے آج کی طالب علم بلوچستان سے باہر بلوچ کونسل کے نام پر سرگرم عمل ہے لیکن بی ایس او کے مختلف دھڑوں کو ونگ کے نام پر چلانے یا اپنے سیاسی جماعت کی شو پیس بنانے کے علاوہ کوئی عملی یا نظریاتی کام نہیں ہوسکی جبکہ بی ایس او کے نام پر کسی بھی دھڑے کی وجود سیاسی جماعت کے اسٹیج،کوئٹہ پریس کلب یا کوئٹہ میں موجود آپس کے اختلافی مباحثوں یا لڑائیوں سے نہیں نکل سکے بلوچستان کے دور دراز علاقوں میں سرکلنگ یا سیاسی پروگرامنگ محدود ہوکر رہ گئی یا مکمل طور پر سیاسی جماعتوں کے چند کارکنوں کی شکل و صورت اختیار کرتی گئی ۔

2006 کے تقسیم کے بعد جسطرح دھڑے بندی کی گئی یا بعد میں شدید نیشنلزم یا پارلیمانی نیشنلزم کے نعرے لگے لیکن تقسیم کی بنیادی وجوہات یہی تھے کہ ہر سیاسی جماعت کو اپنے اسٹیج پر بی ایس او کے عظیم نام کی ایک اپنا کارکن چاہیے تھا جو بیان و خطاب خوشامد اسی جماعت کا کرتا اور لیبل بی ایس او کا نظر آتا ۔

سیاسی جماعتوں کے لئے بی ایس او نام کے ہوتے ہوئے کسی بھی ونگ کا قیام مکمل طور پر ناممکن ہے یہی وجہ یے ہر جماعت اپنا ایک بی ایس او رکھنے کی کوشش کرتی رہی یے جسکا نتیجہ ہر کونسل سیشن کے موقع پر مداخلت یا چند دوستوں کی سرپرستی یا باقی کو کنارہ کرنے کا لگا رہا یے حالیہ کونسل سیشن جس میں تضادات کے باوجود ایک بی این پی کو بی ایس او کے کارکنوں یا دوستوں کے ساتھ دلچسپی ہوتی تو متنازع کونسل سیشن کے نتیجے میں بننے والے سیشن کے نتیجے میں کابینہ و مرکزی کمیٹی کو دوسرے کنارہ ہونے والے کارکنوں کے ساتھ بٹھا کر مسائل کی آئینی حل و ثالث کا کردار ادا کرتے لیکن بی این پی کا روایہ ایک گروہ کی جانب جکھا رہا جبکہ دوسرے گروہ نے احتجاج کے باوجود نہ کوئی دھڑے کا اعلان کیا نہ ہی کسی طور پر اپنی الگ اسٹرکچر قائم کی لیکن پارٹی ہزاروں کے جلسہ گاہ میں ایک کو لیڈر دوسرے کو کمتر یا رجیکٹڈ شو کیا تاکہ آئندہ طلباء سیاست کے لئے سیاسی جماعت کے ساتھ اپنی وابستگی کی کوئی سفارش یا گارنٹی ڈھونڈ کر عہدہ حاصل کرکے لیڈر کا درجہ حاصل کرسکتے ہے کوئی طالب علم بغیر تعلق کے کوئی سیاسی وجود نہیں رکھتا کم از کم بی این پی کے قیادت سابق تاریخ سے سبق حاصل کرکے ایک گروہ کو دوسرے پر فوقیت دینے کی روش کو ختم کرنا چاہیے کیونکہ گذشتہ 2006 کے تقسیم کے بعد جس شخص کو چیئرمین بنا کر اسٹیج بنایا گیا یا بی این پی زور پر علاقوں میں زونز بنا کر ایک بی ایس او کا لیڈر کہا گیا کیا وہ شخص آج دوسری جانب ڈیتھ اسکواڈ بنائی پریس کانفرنس نہیں پڑھ رہی یے اگر واقعی بی این پی یا کسی سیاسی جماعت کو اپنی اسٹوڈنٹ ونگ بنانے کی ضرورت ہے تو وہ اس پر اپنے آئین میں کام کرکے اس میں باقائدہ طریقہ کار کے کام کرسکتے ہے بی ایس او کے دو ناراض ہونے والے دوستوں کو بٹھانے سمجھانے یا معاملات کو سلجھانے کے ایک گروپ کو اسٹیج دوسرے کنارہ کرنے کی وجہ سے ہی آج بی ایس او اس کمزوری کی حالت میں ہے جسکا اعتراف مرکزی کمیٹی یا کونسل سیشن کے موقع پر ہوئی بلوچستان سے باہر طلباء ایکٹیو ہے بی ایس او کا نام نہیں لیتے ،بلوچستان میں چند تعلیمی اداروں کے علاوہ بی ایس او کے سرگرمیاں نظر نہیں آتی پہلے دور کی طرح اسٹریٹ کی طاقت دور دور دراز کے کالجز میں یا اسکولز میں بی ایس او کی ممبرشپ سے طلباء واقف نہیں بی ایس او کے سیاست کو اسٹیج سے نکل کر تعلیمی اداروں میں طلباء کی نمائندہ سیاست ہونی چاہیے ۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔