بلوچ لیڈر ڈاکٹر اللّٰہ نزر بلوچ کے خلاف نوآبادیاتی پروپگنڈے – (حصہ سوئم) – گورگین بلوچ

468

بلوچ لیڈر ڈاکٹر اللّٰہ نزر بلوچ کے خلاف نوآبادیاتی پروپگنڈے

تحریر: گورگین بلوچ

(حصہ سوئم)

دی بلوچستان پوسٹ

جب لوگ اپنے ہی روز مرہ کاموں اور ثقافتی طور طریقوں سےنظر آتے تھے تو افواجِ پاکستان کو پسند نہیں لگتے۔ بعد وہاں کے روایتی و ثقافتی اہمیت و فضیلت کو ختم کرنے کیلئے نئے حربے استعمال میں لانا شروع کردیا تھا۔ مشکے جیسے علاقے کو جہاں پہاڑی سلسلے کے نزدیک جوان و بوڑھے لوگ اپنے بلوچ ثقافتی روایات کے مطابق جی رہے تھے۔ ان میں زیادہ تر بڑے مونچھیں رکھتے، بڑے داڑھی بھی رکھتے۔ ان کے سروں پر بلوچی پگڑیاں تھے۔ یہ پگڑیاں دو رنگوں کے ہوتے: گرین کلر، یہ اکثر پہاڑوں کے لوگ پہنتے، اور سفید کے ہوتے، یہ شہروالے یا زکری مذہب کے لوگ پہنتے۔

آہستہ آہستہ بلوچ رویات پر پابندی عائد کردینا شروع کردیا تھا ،کبھی کبھار کسی کی کندے پر بلوچی چادر دیکھتے تو فوجی کیمپ میں منتقل کرتے، تو کبھی لمبے بالوں والی انسان کو دیکھ کر ان پر تشدد کرتے یا لاپتہ کرتے۔

چند ہی ہفتوں کے بعد بڑے شلوار، بڑے مونچھیں، بلوچی چادر اور ثقافتی چیزیں دیکھنے کو نہیں ملتے کیونکہ سب پر پابندی عائد ہوئی تھی۔

ہر عزت دار بوڑھے مرد گھر سے باہر قدم نہیں رکھتے کیونکہ وہ خود کو باہر لوگوں کو دکھانے کے قابل نہیں رہے تھے، وہ زندگی سے زیادہ عزت کی موت کو ترجیح دیتے تھے۔

ایک سال بعد خبر گردش کرنے لگی کہ پاکستانی فوج نے چار بلوچ خواتین اور چھ بچوں کو کوئٹہ سے گرفتار کرلیا ہے۔ ان پر یہی الزامات عائد کی تھی کہ وہ افغان باڈر پارکرنےوالے تھے۔ان کے پاس پیسے تھے جو افغانستان میں آزادی پسند لوگوں کیلۓ لیجارہے تھے۔

لیکن ہمیں یہ بھی معلومات حاصل ہوئے تھے کہ سابقہ چیرمین خلیل بلوچ نے نوآبادیاتی بیان کو مسترد کرکے بتایا تھا کہ بلوچ آزادی پسند رہنما ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ کی اہلیہ فضیلہ بلوچ ایک فوجی آپریشن میں زخمی ہوئی تھیں جس کے بعد ان کی ریڈ کی ہڑی کا آپریشن ہوا جو ناکام رہا۔علاج کی غرض سے کوئٹہ میں گٸ تھی کہ انہیں تین خواتین اور چھ بچوں کے ساتھ سریاب روڑ اسلم بلوچ کی ہمشیرہ کے گھر سے اٹھایاگیا تھا۔

بلوچ خواتین کی گرفتاری کا مسئلہ مشکے کے عوام اور باشعور انقلابی دوستوں کے درمیان ایک نئی بحث و مباحثہ چھیڑ دی کہ ہر طرف یہی سننا پڑا کہ”نوں دستاناں سرا کتگ پہ نندگ، ادا مرد شمارا اچ کٹ نہ دنت۔” یہ جملے عام انسان کے منہ سے سننا پڑتا، ہر بندا یہی خیال کرتا تھا کہ اب یہ پاکستانی فوج وہی کرنے والا ہے کہ بنگالیوں کے ساتھ کر چکا ہے۔ کچھ ایسے علاقے جہاں تعلیم یافتہ لوگ بہت کم دکھنے کو ملتے ہیں وہاں لوگوں کو ماؤں کی اٹھانے کی دھمکیاں بھی دیتے رہتے تھے۔

ایک مہینے کے بعد آنکھوں سے ایک تصویر دیکھنے کو ملا کہ جس میں ثنااللہ زہری و سرفراز بگٹی خود کو قوم دوستی کا پاسدار دکھاتے ہوئے لمہ فضیلہ بلوچ کی سرپر چادر رکھ کر یہی دکھانے کی کوششیں کررہے ہیں کہ وہ اپنے بلوچی رویاتوں کی کس قدر عزت کرتے ہیں اور انہیں اپنے گھروں کے خواتین سمجھ کر عزت وحترام کے ساتھ چھوڑ رہے ہیں۔

میرے ساتھ دو اور بوڑے مرد تھے کہ وہ سمجھ چکے تھے کہ یہاں ماؤں اور بہنوں کے سروں کے دوپٹے فوجی کیمپوں میں اتارتے ہیں یا گھروں کی مسمار کرنےکے دوران انہیں مار مار کر دوپٹے چیر چیر کرلیتے ہیں اس وقت تو نہ سرفراز آتا ہے اور نہ ہی ثناء اللّٰہ زہری آخر کوئٹہ میں بیمار عورت سمیت دوسرے خواتین اور بچوں کو کھوٹری میں ڈال کر بعدازاں بازیابی کے دوران خود کو قوم دوست کے طور پر پیش کرتے ہیں!

اس ظلم و بربریت کی تسلسل کے باجود ریاستی چمچے میڈیا میں بیان بازیاں دیتے رہے کہ ثنا اللہ زہری اور سرفراز بگٹی نے بلوچیت کی عزت کی ہے۔

ہم تو دیکھ رہے تھی کہ مشکے میں پہلے سال دوہزار سولہ سے پورے مشکے کے عوام کو بلوچ آزادی پسند ڈاکٹر اللہ نزر کے خلاف ورغلانے کی ناکام کوششیں جاری تھے، ڈیتھ اسکواڈ والوں کا سربرا خونخوار ظفرنامی آرمی مہراللہ کے ساتھ ملکر باقی سرنڈر شدہ لوگوں کے ساتھ پورے مشکے کے عوام میں نوآبادیاتی پروپگنڈوں کو پروموٹ کرنے لگے تھے،وہ ڈاکٹر اللہ نزر کے خلاف نعرے لگواتے،ایک نوآبادیاتی میر رحمت اللہ نے بھی نوآدیاتی بیان بازیاں دینے شروع کردیا تھا کہ تحریک چور و ڈاکو اور دہشتگرد نہیں چلا سکتے۔ یہی باتیں پورے عوام کٕے سامنے کررتا رہا۔

اب مزید نوآبادیاتی نعرے بلند ہونے لگے۔ یہ نعرے ” جو اللہ نذر کا یار ہے وہ غدار ہے جو اختر ندیم کا یار ہے وہ غدار ہے” بلند کرواتے۔

ابھی تک لوگ بھول نہیں گئے تھے کہ جس چوک پر بلوچ فرزندان وطن کھڑے ہوکر بلوچ قومی آزادی کی باتیں کرتے اور آزادی کی گیت گنگناتے آج اسی چوک پر ڈیت اسکواڈ والوں کے ایک مجموعی تعداد کے لوگ بلوچ فرزندان کی سودارگری کر رہے تھے، وہ شہیدوں کی خون پر سودالگانے لگے تھے، ہر اس ماں کی آنسووں کی جو کہ ستر سالوں سے آزادی کی خواب دیکھ رہی تھی،ہر بلوچ بہن کی جو اپنی لاپتہ شوہر کی درد وغم میں بوڑی ہوچکی ہے یا مرگٸی ہے،اس دھرتی کی جو کبھی بلوچ نرمزار پیداکرتے، وہ ہر گاوں میں یہی استعماری بیانیہ پھیلاتے کہ ڈاکٹر اللہ نزر بلوچ کی اہلیہ فضیلہ بلوچ نے دشمن کے سامنے ہارمان کر اپنے سرنڈرشدہ خاندانوں کے ساتھ رہ رہی ہے اور ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ بھی سرنڈر کریگا۔

یہ نوآبادیاتی بیانیوں نے کسی پر اثرات مرتب نہیں کیا ہر انسان کو یہ شعور تھی کہ ڈاکٹر اللہ نزر بلوچ دشمن کے خلاف ہر قدم تک جاسکتے ہیں، وہ اتنی آسانی سے ہار ماننے والا نہیں وہ بلوچ قومی جہد کا سرچشمہ ہے کہ انہوں نے اپنی خاندانوں اور رشتہ داروں کی قربانیاں دی ہیں وہ اس جہد کیلئے خود کو صرف کرسکتے ہیں، اپنی پوپل اور اہلیہ کو بھی لیکن شہادت تک یہی فولاد رہے گا،یہی انقلابی دانشور جو اپنے بندوق اور قلم سے ہر میدان و دشت اور جنگل یا پہاڑ کو خوبصورتی منور کرتے ہیں، وہ دشمن کو سرنڈر کرنے کیلٸے مجبور کردینا والا ایک ایسا فرشتہ ہے جو اپنے ہی زمین کے لوگوں کو آزادی دلاکر پوری کائنات کو انسانیت کا آماجگاہ بنادیتے ہیں۔

جاری


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔