اقوام متحدہ فیکٹ فائنڈنگ مشن توتک اجتماعی قبروں کی ازسر نو تحقیات کرے ۔ بی وی جے

212

بلوچ وائس فار جسٹس نے ایمنسٹی انٹرنیشنل، ہیومن رائٹس واچ، یورپین ہیومن رائٹس سوسائٹی، ہیومن رائٹس کونسل، اقوام متحدہ کے حقوق انسانی کمیشن، ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان، یو این کی ورکنگ گروپ برائے جبری گمشدگی سے 18 فروری 2011 کو توتک آپریشن کے دوران جبری لاپتہ کئے گئے قلندرانی قبائل کے بزرگ و نوجوانوں کو بازیاب کرانے کے لئے کردار ادا کرنے کی اپیل کی۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ انسانی حقوق کی تنظیمیں جس طرح بلوچستان میں جاری انسانی حقوق کی سنگین پامالیوں خصوصاً جبری گمشدگیوں کی غیر انسانی عمل سے نظریں چرا رہے ہیں، اس اہم انسانی مسئلے کو دانستہ یا غیر دانستہ طور پر نظر انداز کررہے ہیں ان کے اس رویے سے بلوچستان میں ایک بہت بڑا انسانی المیہ جنم لے چکا ہے، ہزاروں انسان جبری لاپتہ کیئے گئے ہیں جن میں طالب علم، سیاسی، سماجی، انسانی حقوق کے کارکن، اساتذہ، ادیب، دانشور، صحافی سمیت بڑی تعداد میں خواتین و بچے بھی شامل ہیں اور ان کے تمام انسانی حقوق سلب کئے گئے ہیں، انہیں قانونی حق استعمال کرنے اور صفائی پیش کرنے کا موقع بھی فراہم نہیں کیا جارہا نہ ہی انہیں قانونی طور پر اپنے اوپر لگائے گئے الزامات کے دفاع کے لئے وکیل کرنے کی اجازت دی جاتی ہے، سالوں سے لاپتہ افراد کو ان کے لواحقین سے بھی ملاقات کی اجازت نہیں ہے جس سے لاپتہ افراد کے لواحقین مختلف خدشات و تحفظات کا شکار ہوچکے ہیں، انہیں کچھ علم نہیں کہ ان کے پیارے زندہ ہے کہ نہیں۔ لاپتہ افراد کو عدالتوں میں پیش کرنے اور قانونی معاونت فراہم کرانے کے لئے انسانی حقوق کی تنظیمیں کردار ادا کریں۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ توتک کے علاقے سے 27 جنوری 2014 میں تین اجتماعی قبریں دریافت ہوئیں۔ جن سے سرکاری سطح پر 169 لاشیں ملنے کا دعویٰ کیا گیا پھر تقریباً تین لاشیں نکالی گئی اور بعد اِن اجتماعی قبروں کو دوبارہ سیل کیا گیا اور تفتیش و تحقیقات کا عمل روک دیا گیا کیونکہ ان اجتماعی قبروں میں ریاستی اداروں اور ان کے بنائے گئے ڈیتھ اسکواڈ کے لوگوں کے نام سامنے آرہے تھے، بلوچ قوم پرست جماعتوں کا دعویٰ ہے کہ ان اجتماعی قبروں میں 169 سے کئی زیادہ لاشیں مدفن ہیں اور خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے کہ اِن اجتماعی قبروں میں جبری طور پر لاپتہ کیئے گئے افراد کو قتل کرکے اجتماعی طور پر دفن کیا گیا ۔

بیان میں کہا گیا ہے توتک اجتماعی قبروں کا اقوام متحدہ کی فیکٹ فائنڈنگ مشن کی موجودگی میں ازسر نو تحقیات کی جائے۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ 18 فروری 2011 کو بلوچستان کے ضلع خضدار کے علاقے توتک میں ایک فوجی کاروائی کے دوران درجنوں افراد کو جبری لاپتہ کیا گیا تھا، توتک آپریشن میں لاپتہ کیئے گئے بزرگ و نوجوان اور اس سے قبل اور بعد میں مختلف علاقوں سے قلندرانی قبائل کے متعدد نوجوان کو جبری گمشدگی کا نشانہ بنایا گیا، جبری لاپتہ کیئے گئے افراد میں قبیلے کے بزرگ شخصیت میر رحیم خان قلندرانی سمیت عتیق الرحمٰن، خلیل الرحمٰن، وسیم، ندیم، آفتاب بلوچ، فدا بلوچ، ڈاکٹر ظفر، آصف بلوچ، عمران بلوچ، ارشاد بلوچ، ضیاء اللہ، مصطفیٰ قلندرانی، نثار گرگناڑی، طاہر قلندرانی سمیت دیگر تاحال لاپتہ ہیں، انسانی حقوق کی تنظیمیں قلندرانی قبائل کے جبری لاپتہ بزرگ و نوجوانوں کے سمیت بلوچستان و پاکستان کے دیگر شہروں سے جبری لاپتہ کئے گئے بلوچ نوجوانوں و طالب علموں کی بازیابی اور جبری گمشدگیوں کا سلسلہ روکنے کے لئے عملی اقدامات اُٹھائیں۔