اسرائیل ،فلسطینی عسکری تنظیم حماس کی جانب سے گزشتہ ہفتے کیے گئے حملے کو اپنا’نائن الیون’ قرار دے رہا ہے جب کہ اس کارروائی کے ماسٹر مائنڈ اور فلسطینی عسکری لیڈر محمد ضیف نے اسے ’طوفان الاقصیٰ‘ کا نام دیا ہے۔
محمد ضیف اسرائیل کو مطلوب ترین شخص ہیں۔ ہفتے کو جب جنوبی اسرائیل میں حماس نے حملے کا آغاز کیا تو اس کے بعد انہوں نے اپنے آڈیو پیغام میں کہا تھا کہ یہ کارروائی یروشلم میں مسجدِ اقصیٰ پر اسرائیل کے چھاپوں کا انتقام ہے۔
خبر رساں ادارے ‘رائٹرز’ کے مطابق حماس کے ایک قریبی ذریعے سے یہ معلوم ہوا ہے کہ یہ مئی 2021 کی بات ہے جب مسجدِ اقصیٰ پر اسرائیل کے چھاپوں کے بعد محمد ضیف نے ایک بڑی کارروائی کی تیاریاں شروع کردی تھیں۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ رمضان کے مہینے میں اسرائیلی فورسز کے الاقصیٰ مسجد پر ہلہ بولنے، عبادت گزاروں سے مار پیٹ، عمر رسیدہ اور نوجوانوں کو گھسیٹ کر مسجد سے باہر نکالنے جیسے مناظر نے غم و غصے کو ہوا دی تھی۔
مسجد میں اسرائیل کی در اندازی کے اس واقعے کے بعد اسرائیل اور حماس کے درمیان 11 روز تک شدید جھڑپیں جاری رہیں۔ ان جھڑپوں کے دو برس بعد ہفتے کو ہونے والے حملے کو 1973 کی عرب اسرائیل جنگ کے بعد اسرائیل کے لیے سب سے بڑا ‘سیکیورٹی بریچ’ قرار دیا جارہا ہے۔
کچھ بڑا ہونے والا ہے!
محمد ضیف حماس کے عسکری ونگ عزالدین قسام بریگیڈ کے سربراہ ہیں جو اسرائیل کے متعدد قاتلانہ حملوں میں محفوظ رہے ہیں۔ ان پر حالیہ قاتلانہ حملہ 2021 میں ہوا تھا۔ محمد ضیف بہت کم پیغامات جاری کرتے ہیں اور آج تک وہ کبھی منظرِ عام پر نہیں آئے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ جب ہفتے کو حماس کے ٹی وی چینل نے محمد ضیف کے خطاب کا اعلان کیا تو فلسطینیوں کو معلوم ہوگیا تھا کہ کچھ بڑا ہونے والا ہے۔
اس اعلان کے بعد محمد ضیف کی ایک آڈیو ریکارڈنگ چلائی گئی جس میں انہوں نے کہا: “آج الاقصیٰ اور ہمارے لوگوں کا غیض و غضب بے قابو ہوچکا ہے۔ اے میرے مجاہدو، آج تمہارا دن ہے۔ تم مجرموں کو سبق سکھا دو کہ ان کا خاتمہ قریب ہے۔”
حماس کے عسکری ونگ کو کامیابی سے چلانے کی وجہ سے انہیں فسلطینیوں میں ایک ہیرو سمجھا جاتا ہے۔ حماس کے قریبی ذرائع کا کہنا ہے کہ محمد ضیف ہمیشہ ویڈیوز میں نقاب پوش ہوتے ہیں یا صرف ان کا سایہ دکھایا جاتا ہے۔ وہ کوئی ڈیجیٹل ٹیکنالوجی بھی استعمال نہیں کرتے۔ ذرائع کے بقول ’’ضیف ناقابلِ رسائی ہیں، وہ نظروں سے اوجھل شخص ہیں۔‘‘
ضیف کی صرف تین تصاویر ہی دستیاب ہیں۔ ایک ان کی بیس سال تک کی عمر کی تصویر ہےجب کہ ایک تصویر میں انہوں نے ماسک پہن رکھا ہے۔ تیسری تصویر میں ان کا سایہ ہی نظر آرہا ہے اور یہ تصویر اکثر ان کے آڈیو ٹیپ کے ساتھ استعمال کی جاتی ہے۔
عام طور پر تصور کیا جاتا ہے کہ محمد ضیف غزہ میں حماس کی بنائی گئی سرنگوں میں کہیں مقیم ہیں۔ لیکن ان کا ٹھیک ٹھیک پتا معلوم نہیں۔ اسرائیل کے سیکیورٹی ذرائع کا کہنا ہے محمد ضیف حماس کے حالیہ حملے کی منصوبہ بندی اور اس کے عملی پہلوؤں میں براہِ راست ملوث ہیں۔
دو دماغ، ایک ماسٹر مائنڈ
حماس کے قریبی ذرائع کا کہنا ہے کہ اسرائیل پر حملے کی منصوبہ بندی کے پیچھے دو دماغ کام کر رہے تھے لیکن ماسٹر مائنڈ ایک تھا۔ قسام بریگیڈ کے سربراہ کے طور پر محمد ضیف اور غزہ میں حماس کے سربراہ یحییٰ سنوار نے مل کر اس منصوبے پر کام کیا لیکن یہ واضح ہے کہ ماسٹر مائنڈ کون تھا۔
اس کارروائی کی منصوبہ بندی کو اتنا خفیہ رکھا گیا تھا کہ اس کی تفصیلات سے حماس کے چند رہنماء ہی واقف تھے۔
حماس پر نظر رکھنے والے علاقائی ذرائع کا کہنا ہے اس کارروائی میں بہت سی باتیں تو کھلے راز کی طرح ہیں جیسا کہ ایران اسرائیل کا کھلا دشمن ہے اور حماس کو کسی بڑی کارروائی کے لیے تربیت اور وسائل فراہم کررہا ہے۔ لیکن کسی بڑے آپریشن کی تیاری کن مراحل میں ہے اور یہ کس وقت ہو گا؟ اس بارے میں کسی کو کچھ علم نہیں تھا۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ اگرچہ تہران اس بات سے آگاہ تھا کہ کسی بڑی کارروائی کی تیاری کی جا رہی ہے۔ لیکن حماس نے فلسطینی قیادت، ایران نواز لبنانی ملیشیا حزب اللہ یا ایران کے ساتھ بھی اس کی مکمل تفصیلات کا تبادلہ نہیں کیا تھا۔ ذرائع کے بقول کسی کو اس کی بھنک بھی نہیں پڑنے دی گئی۔
ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای نے منگل کو اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ تہران اسرائیل پر حملے میں ملوث نہیں۔ اسی طرح امریکہ کا کہنا ہے کہ ایران اگرچہ حماس کا مددگار رہا ہے لیکن اسرائیل پر حملے میں تہران کے ملوث ہونے کے براہِ راست شواہد دستیاب نہیں ہیں۔
محمد ضیف نے منصوبے کی تیاری کے دوران اسرائیل کو فریب دینے کے لیے بہت محتاط اور طویل عرصے تک کوششیں کیں۔ وہ اسرائیل کو یہ تاثر دینے میں کامیاب رہے کہ حماس اب اس کے ساتھ کسی براہِ راست تصادم کا ارادہ نہیں رکھتا اور اس کی ساری توجہ غزہ کی معاشی ترقی پر ہے لیکن غزہ میں وہ اپنی قوت جمع کر رہا تھا۔
حماس کے قریبی ذرائع کا کہنا ہے کہ جس دور میں اسرائیل غزہ میں کام کرنے والوں کو معاشی مراعات دے رہا تھا۔ اسی دور میں حماس اسرائیلی فوج کی نظروں کے سامنے اپنی مشقیں اور تربیت جاری رکھے ہوئے تھی۔
حماس کے بیرونی تعلقات کے سربراہ علی برکہ کا کہنا ہے:”ہم دو سال سے اس کی تیاری کررہے تھے۔”
اپنے ایک حالیہ ریکارڈڈ بیان میں محمد ضیف نے پر اطمینان انداز میں کہا کہ حماس نے اسرائیل کو کئی بار خبردار کیا تھا کہ وہ فلسطینیوں کے خلاف جرائم سے باز آجائے، قیدیوں کو رہا کرے۔ ان کے بقول فلسطینی قیدیوں کو تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے اور اسرائیل مسلسل فلسطینی علاقوں پر قبضہ کر رہا ہے۔
جنگ کے بادل
گزشتہ ایک سال کے دوران مغربی کنارے میں شدید بد امنی رہی ہے۔ 100 کلو میٹر لمبا اور 50 کلومیٹر چوڑا یہ علاقہ اسرائیلی اور فلسطینی تنازع کا محور رہا ہے۔ اسرائیل نے 1967 کی چھ روزہ عرب اسرائیل جنگ کے بعد مغربی کنارے پر قبضہ کیا تھا۔
ضیف کا کہنا ہے کہ حماس نے بین الاقوامی برادری پر زور دیا تھا کہ وہ ’قابضین کے جرائم‘ کو ختم کرائے لیکن اسرائیل کی اشتعال انگیزی جاری رہی۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ حماس نے ماضی میں اسرائیل سے انسانی بنیادوں پر فلسطینی قیدیوں کی رہائی کا مطالبہ کیا تھا لیکن اسے مسترد کر دیا گیا۔
محمد ضیف کے مطابق اسرائیل کی جانب سے بین الاقوامی قوانین کی مسلسل خلاف ورزیوں اور ہٹ دھرمی، اسے حاصل امریکی و مغربی حمایت اور اس معاملے پر دنیا کی خاموشی کو دیکھتے ہوئے یہ طے کیا کہ اب اس سب کا خاتمہ ہوجانا چاہیے۔
’نظروں سے اوجھل‘
محمد ضیف کا اصل نام محمد مصری ہے۔ وہ 1965 میں خان یونس کے پناہ گزین کیمپ میں پیدا ہوئے جو 1948 کی عرب اسرائیل جنگ کے بعد قائم کیا گیا تھا۔
انہوں نے 1987 میں فلسطینیوں کی دوسری مزاحمت یا انتفادہ کے دوران حماس کی تشکیل کے بعد اس میں شمولیت اختیار کی اور تبھی محمد ضیف کا نام اختیار کیا۔
حماس کے ذرائع کے مطابق محمد ضیف 1989 میں اسرائیل کے ہاتھوں گرفتار ہوئے اور 16 ماہ تک قید میں رہے۔
ضیف نے غزہ کی اسلامی یونیورسٹی سے سائنس میں ڈگری حاصل کی جہاں انہوں نے فزکس، کیمسٹری اور بائیولوجی کے مضامین پڑھے۔ دورِ طالب علمی میں ضیف کو آرٹس سے بھی دل چسپی تھی۔ وہ یونیورسٹی کی انٹرٹینمنٹ کمیٹی کے سربراہ رہے اور اسٹیج پر کامیڈی بھی کرتے تھے۔
حماس میں ضیف نے تیزی سے ترقی کی۔ انہوں نے غزہ میں سرنگوں کا جال بچھایا اور بم بنانے کی مہارت بھی حاصل کی۔ گزشتہ دہائیوں کے دوران وہ اسرائیل کو مطلوب ترین افراد کی فہرست میں شامل ہوئے۔ اسرائیل انہیں خود کُش دھماکوں میں اپنے درجنوں شہریوں کی ہلاکت کا ذمے دار قرار دیتا ہے۔
ضیف کے لیے رو پوش رہنا زندگی اور موت کا سوال ہے۔ حماس کے ذرائع کا کہنا ہے کہ اسرائیل کے قاتلانہ حملوں میں ضیف ایک آنکھ اور ایک ٹانگ سے محروم ہو چکے ہیں۔
سال 2014 میں اسرائیل کے ایک حملے میں محمد ضیف کی بیوی، سات ماہ کا بیٹا اور تین برس کی بیٹی ہلاک ہو گئے تھے۔
فلسطینی ذرائع کا کہنا ہے کہ اسرائیل نے حماس کے حملے کے بعد غزہ میں رات کے حملوں میں جن مکانات کو نشانہ بنایا ان میں محمد ضیف کے والد کا گھر بھی شامل ہے۔ ذرائع کے مطابق ضیف کے والد، بھائی اور دیگر رشتے داروں کی ہلاکت کی بھی اطلاعات ہیں۔