اختلافات کے باوجود تمام اسٹیک ہولڈر پر مشتمل قومی کونسل کا قیام عمل میں لائے جائے۔ دلمراد بلوچ

552

بلوچ نیشنل موومنٹ کے سیکرٹری جنرل دلمراد بلوچ نے اپنے حالیہ ایک انٹرویو میں کہا کہ بلوچ قومی سیاست میں اتحاد زیادہ دیر تک نہیں چل سکیں ہیں ،اس کی بہت ساری وجوہات ہیں جن میں عاقبت نااندیشی ،قبائلی ذہنیت ، سولوفلائٹ کا شوق، دشمن کی چالاکیاں ،عدم برداشت ،بقائے باہمی سے عدم مطابقت سوچ وغیرہ قابل ذکر ہیں لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ اتحاد کے لیے کوشش نہ کی جائے یا صرف ماضی کا رونا رویا جائے ،کیونکہ جیسا بھی ہے یہ ہمارا ماضی ہے اسے تمام خوبیوں اورخامیوں کے ساتھ قبول کیاجائے ،خوبیوں پر فخر اورخامیوں سے سبق سیکھا جائے ،اب بھی کوششیں جاری ہیں کہ اتحاد کی جانب دوقدم آگے بڑھیں ۔

انہوں نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ ہم متبادل زاویے سے سوچنے کے عادی نہیں ہیں ،متبادل زاویے سے سوچنے کو مختلف رنگ دیئے جاتے ہیں ، میں سمجھتا ہوں کہ اتحاد کے دو یا دو سے زائد متبادل ذرائع ہیں جن سے باقاعدہ اتحاد، اشتراک عمل کے قیام تک کام لیا جاسکتاہے ،پہلا یہ کہ تمام اسٹیک ہولڈرز میں رابطے کا سلسلہ ہروقت اور ہر صورت میں قائم رہے ،دوسری تجویز ذرا مختلف ہے اس پر بھی سوچا جاسکتاہے تجویز یہ ہے کہ تمام اسٹیک ہولڈر پر مشتمل ایک قومی کونسل کا قیام عمل میں لایا جائے ،تمام تر اختلافات وتحفظات کے باوجود سبھی اس میں شامل ہوں، اس کا سال میں کم ازکم ایک میٹنگ لازمی ہو اور اس میں تمام اسٹیک ہولڈرز کی شرکت یقینی ہو۔اس کونسل میں تمام اختلافی مسائل زیر بحث لائے جائیں ، ضروری نہیں کہ ان پر اتفاق کیا جائے ،ضروری نہیں کہ ایک دو میٹنگوں سے ہم اپنا اصل مدعا یعنی اتحاد قائم کرنے میں کامیاب نہ ہوں ،کامیابی نہ ہونے کے باوجود باضابطہ میٹنگ کاسلسلہ نہیں رکنا چاہئے ،یہی میری نظرمیں سب سے اہم نقطہ ہے کہ سالانہ اس کونسل کے میٹنگ باقاعدگی سے منعقدہوں ،جب تک کامیابی نہ ملے تب بھی اس سلسلے کو جاری رکھنا چاہئے ،میں سمجھتا ہوں کہ یہ کونسل بہتر متبادل ہوسکتا ہے اورعین ممکن ہے کہ اختلافی مسائل پر مسلسل مذاکرات ،بحث و مباحثہ سے ہم بہتر مستقبل کی جانب بڑھ سکیں ۔

انہوں نے مزید کہا میری اس تجویز کا بنیادی مقصد بلوچ کاز سے جڑے اسٹیک ہولڈرکے درمیان پائے جانے والے غلط فہمیوں کا ازالہ ہے اوراس کا ازالہ صرف اسی صورت ممکن ہیں جب نمائندگاں باقاعدگی سے روبرو ہوں ،کھل کے اپنا اپنا رائے کا اظہار کریں اور دوسروں کی رائے سنیں ،شائد مسائل اتنے زیادہ نہیں جتنے روابط کی عدم موجودگی میں پیدا ہوئے ہیں ،کیونکہ مسائل اس وقت جنم لیتے ہیں جب باقاعدہ رابطہ نہ ہوں اوران پر بحث نہ ہو،پیغام رسانی اورمتبادل ذرائع روبرو بحث ومباحثے کی ہرگز نعم البدل نہیں ہوسکتے ۔

افغانستان پر طالبان کے برسراقتدارآنے کے بعد کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں دلمراد بلوچ کا کہنا تھا کہ أفغانستان میں طالبان کی حکومت برسراقتدار آئی اورامریکہ نے انخلاء کیا تو بہت سوں نے کہا کہ اب تحریک اپنی رفتار کھودے گا ،ان خدشات کا اظہار ان حلقوں کی جانب سے تھا جو یا تو دشمن کے پروپیگنڈے سے متاثر تھے یا انہیں عوام میں تحریک کی جڑوں کی گہرائی کا اندازہ نہیں تھا لیکن حالات نے ثابت کردیاکہ وہ خدشات غلط تھے ۔

پاکستانی جنرل الیکشن کے حوالے سے پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ بلوچستان پاکستانی فیڈریشن کا حصہ نہیں ہے اورنہ ہی پاکستان حقیقی معنوں میں کوئی فیڈریشن ہے،بلوچستان پر پاکستان نے بندوق کے زور پر قبضہ کیا اور یہ ایک مقبوضہ خطہ ہے پاکستان کے پاس کوئی اخلاقی ،قانونی جواز نہیں ہے کہ وہ بلوچستان میں انتخابات منعقد کرے لیکن اس حقیقت کو نظرانداز کیاجائےتوبھی  پاکستان ایک جمہوری ملک نہیں ہے پورے ملک کے سیاسی ،معاشی اوربندوبستی نظام پر فوج کی اجارہ داری ہے ،بلوچستان میں یہ اجارہ داری کچھ زیادہ ہی ہے کیونکہ بلوچستان فوج کے لیے ہمیشہ ایک جنگی زون رہاہے اورآج بھی ہے یہاں نظام حکومت مکمل طورپر فوج کے ہاتھ میں ہے فوج چاہے تو راتوں رات پارٹی بناتا ہے اور حکومت قائم کرلیتا ہے ،یہاں جمہوریت کے نام ایک فضول مشق کیاجاتاہے جس کے بلوچ قوم اور بلوچ قومی تقدیر سے کوئی واسطہ نہیں ،جتنے بھی پارلیمانی پارٹیاں ہیں وہ صرف اپنی بقا اور چند مراعات کے لیے اس عسکری نظام کا حصہ بن جاتے ہیں سترسالہ نام نہاد جمہوری دور بلوچ کو پینے کا پانی فراہم نہیں کرسکتا تو آئندہ سوسالوں تک پارلیمانی مشق سےکچھ حاصل نہیں ہوگا۔

جبری گمشدگیوں کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ جہاں تحریکیں چلتی ہیں وہاں ایسے حالات متوقع ہیں ،قوموں کو ان سے بدترحالات کابھی سامناکرنا پڑے گالیکن معروضی حالات کاجائزہ اورحکمت عملی آپ کی تدبراورفہم پر انحصار کرتاہے کہ آپ ان حالات میں اپنی نقصانات کم سے کم کرکے آگے بڑھتے ہیں ،ہمیں طویل جنگ کا سامنا ہے لہٰذا طویل المدتی جنگ کے لیے آپ قوم کو حالات کے رحم وکرم پر نہیں چھوڑ سکتے ،لہٰذا حالات کو اپنے حق میں لانے کے لیے سیاسی عمل میں استحکام اور تسلسل لازمی امرہے ،میں سمجھتا ہوں کہ ہمیں ہرصورت میں اپنا سیاسی عمل جاری رکھنا چاہئے اس کے بغیر تحریک کے دیگر محاذبھی متاثر ہوں گے کیونکہ بلوچ قوم کامسئلہ بنیادی طوپر سیاسی وقومی مسئلہ ہے۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ : آج کا چین ماؤ زے تنگ کا چین نہیں بلکہ عالمی سامراج بن چکاہے اوربین الاقوامی سطح پر اپنی اثرورسوخ بڑھانے کے لیے مختلف جہتوں میں کام کررہاہے جس میں قرضوں کاجال  ،میگاپروجیکٹس،ثالثی اورمداخلت شامل ہے سعودی اورایران پرانے حریف ہیں جس کی وجہ سے سعودی سمیت اکثرخلیجی ممالک امریکی بلاک کا حصہ بن گئے اورآج بھی اس خطے میں امریکی اثرورسوخ نمایاں ہے ،یہاں اسرائیل بھی موجود ہے جسے  نظراندازنہیں کیاجاسکتاہے ،اب اس خطے میں امریکی اورچینی مفادات میں براہ راست  ٹکراؤ ہے دونوں کوشش کررہے ہیں کہ خطے میں طاقت کا توازن اس کے حق میں آجائے ،ایران اورسعودی عرب کے درمیانی چینی ثالثی انہی کوششوں  کاحصہ ہے ،چین کوشش کررہاہے کہ ان دونوں حریفوں کے درمیانی روایتی دشمنی کو ختم کیاجائے تاکہ خلیجی ممالک کا انحصار امریکہ پر ختم ہواورسی پیک کوان  ممالک تک وسعت دے ،پاکستان اورایران کی نزدیکی اصل میں سعودی اورایران کی تعلقات کے اتارچڑھاؤپر انحصارکرتاہے کیونکہ پاکستان سعودی عرب کابھی تابع فرمان ملک ہے اورسعودی عرب نے پراکسی جنگ کے لیے وسیع پیمانے پر مذہبی انتہاپسندوں پر سرمایہ کاری کی ہے۔

ان ممالک کے درمیان چینی کوششوں کا اہم پہلو بلوچ قومی تحریک ہے کیونکہ جنگ سے متاثرہ ہزاروں خاندان ایران اورافغانستان میں مہاجرت کی زندگی گزاررہے، پاکستان ان ممالک میں بلوچ مہاجرین کو نشانہ بناتاآیا ہے چین پاکستان کی اس ضمن میں مددکررہاہے اورکوشش کررہاہے کہ بلوچ قومی تحریک کے گرد گھیرا تنگ کیاجائے ،اب یہ بلوچ قیادت کے دانش پرانحصار کرتاہے کہ وہ خطے میں بلوچ دشمنوں کے اتحاد کی صورت میں کیسی حکمت عملی اپنائے گا ۔