بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن آزاد کے مرکزی ترجمان نے بلوچ قومی شاعر مبارک قاضی کی رحلت پر غم و افسردگی کا اظہار کرتے ہوئے انہیں شائرِ آشوب(Poet of Revolution ( کے اعزاز سے نوازنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ مبارک قاضی نے اپنی پوری زندگی بلوچ اور بلوچستان کو بولتے اور لکھتے ہوئے گزار دی ۔ انہوں نے ریاستی دھمکیوں سے لیکر ہر طرح کے سخت حالات کا سامنا کیا لیکن قوم اور زمین سے ان کی دوستی کبھی کم نہیں ہوئی۔ بلوچی شاعری کو مزاحمتی شاعری کے ڈگر میں لانے کے عظیم کارنامے کا سہرہ بھی انہی کے سر جاتا ہے۔ انہوں نے اپنی شاعری میں بلوچستان کا ہر رنگ و چہرہ عیاں کیا۔ بلوچ مزاحمتی شاعری مبارک قاضی کے بغیر نامکمل ہے بلکہ بلوچ مزاحمتی شاعری کا چہرہ مبارک قاضی ہے ۔ اُن کے کردار سے انصاف کرتے ہوئے تنظیم انہیں ”شائرِ آشوب” یعنی شاعرِ انقلاب ” کا اعزاز دینے کا اعلان کرتا ہے۔
ترجمان نے کہاکہ بلوچستان میں جب ریاست نے مارو اور پھینکو پالیسی کا آغاز کیا تو اس کے بعد ایک وسیع پیمانے پر شاعر اور فن کاروں کو بھی نشانہ بنایا گیا ، جنہوں نے بھی بلوچ مزاحمت، مزاحمتی کرداروں اور جہدکاروں کے حوالے سے فن کاری کا مظاہرہ کیا یا شاعری کی انہیں بھی نشانہ بنایا گیا، ایک عظیم انقلابی شاعر مبارک قاضی کو بھی اس میں نشانہ بنایا گیا اور 2014 میں ان کے گھر کے گیٹ پر دستی بم سے حملہ کیا گیا مگر خوفزدہ ہونے کے بدلے انہوں نے واضح طور پر کہا کہ وہ بلوچستان اور بلوچ جدوجہد کے عظیم کرداروں پر شاعری ترک نہیں کرے گا۔ انہوں نے اپنی شاعری میں بلوچ قوم کی غلامی، ریاستی بربریت اور ناانصافیوں، بلوچ جہدکاروں کے عظیم کردار کو ایسے لکھا کہ اُس کا ہر شعر بلوچوں کے دل میں نقش ہے۔ ان کے شاعری پر انہیں جیل میں بھی ڈالا گیا ہے ان کے خلاف ایف آئی آر بھی ہوئی ہیں جبکہ انہیں مختلف طریقوں سے ڈرایادھمکایا بھی گیا ہے لیکن ایک عظیم انقلابی شاعر ہونے کے ناطے انہوں نے کبھی بھی اس پر سمجھوتہ نہیں کیاجبکہ قومی جدوجہد کے اس عظیم سفر میں مبارک قاضی کےلوتے بیٹے اور بلوچ شاعر ڈاکٹر قمبر مبارک نے بھی اپنی جان نچاور کر دی ۔ مبارک قاضی نے بطور ایک بلوچ شاعر جو کردار ادا کیا ہے انہیں بلوچ ہمیشہ یاد رکھیں گے جبکہ وہ تمام نوجوان بلوچ شاعروں کیلئے ایک مثالی کردار بھی ہیں کہ بلوچ جیسے غلام سماج میں ایک شاعر کی اصل مقام کیا ہونا چاہیے اور انہیں کن چیزوں پر شاعری کرنا چاہیے۔ قاضی نے اپنے کردار سے ثابت کیا کہ بلوچ سماج کا کوئی بھی فرد کسی بھی شعبے سے تعلق رکھنے کے باوجود قومی تحریک کیلئے اپنا کردار ادا کر سکتا ہے بشرطیہ کہ وہ محض کچھ چھوٹے مفادات کیلئے اپنی صلاحیتوں کا سودا نہ کریں۔ مبارک قاضی کو کافی مراعاتیں آفر کی گئی کہ وہ بلوچ جہد پر شاعری ترک کرکے ان کی توصیف کریں لیکن انہوں نے بلوچ مٹی سے ٖوفا کیا اور اب بلوچ قوم تا ابد مبارک قاضی سے اپنی وفا نبھائے گی۔
ترجمان نے بیان کے آخر میں کہا کہ تنظیم نے بلوچ قومی اور مزاحمتی شاعری اور آخری سانس تک اس نظریے پر ڈٹے رہنے پر انہیں “شائرِ آشوب ” کا خطاب نوازنے کا فیصلہ کیا ہے ۔ یقینا مبارک قاضی بلوچ شاعری کے وہ عظیم استعارہ ہیں جو تاابد سلامت رہے گا اور ہمیشہ یاد رکھا جائےگا جبکہ بلوچ نوجوان شاعروں سے یہی امید کیا جاتا ہے کہ وہ مبارک قاضی کے راہ و فلسفے پر گامزن رہتے ہوئے زمین اور اس مٹی اپنی وفاداری نبھاتے ہوئے بلوچ زمین پر قابضوں نے جو جنگ چھیڑ دی ہے اُس کو عام عوام کے سامنے لائیں گے اور انہیں ریاستی قبضے و بلوچ قومی مزاحمت اور جدوجہد سے آگاہ کرتے رہیں گے۔جبکہ تمام زونز کو تاکید کی جاتی ہے کہ وہ آشوبِ ئے شائر مبارک قاضی کے چہلم پر مختلف پروگرامز کا انعقاد کریں۔