کوئٹہ پریس کلب کے سامنے جبری گمشدگیوں کے خلاف وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کا احتجاجی کیمپ آج 5176 ویں روز جاری رہا۔
اس موقع پر سول سوسائٹی کے داد محمد بلوچ، اعجاز بلوچ سمیت دیگر مرد و خواتین نے آکر لواحقین سے اظہار یکجہتی کی۔
تنظیم کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ نے وفد سے مخاطب ہو کر کہا کہ زندگی موسم نہیں زندگی سامان اور کوئی شے نہیں آپ زندگی کو بازار حسن سے بارعایت نہیں خرید سکتے اطاعت پیشہ غلام اور پایہ زنجیر قیدیوں کی طرح غلاموں سے استغفار کرو اپنی ہی قدموں سے اپنی زمین کی وسعت کو ناپ کر دیکھو زندگی کہ تشریح کس طرح وسیع و عریض ہے رات اور دن اجھالے اور اندھیرے کی طواف اور پرستش سے باز آ جاؤ، گرنے کی خوف سے سر اٹھا کر چلنے سے گریزا مت رہو انسانی تاریخ کی طرف دیکھو قوموں کی داستاں نہیں ازہر کرو نسلوں کی کاروان کے سفر حیات سے نگاہوں کو سیراب کرو غاروں سے محلوں تک کی طے کردہ مسافتوں کو اپنے حواس سے ناپو اور دیکھوکہ مکرہ ربانوں سے جھوٹے وعدوں نے انسان کو کس طرح ان کی پیدائشی حق سے محروم کرکے ان گردنوں میں غلامی کی طوق کا بوجھ ڈال دیا ہے آزاد انسان ہاتھوں کو ہتھکڑی زدہ کلاہیوں میں تبدیل کردیا ہے تاکہ تم گھٹنوں کے بل ان کے حضور باش طلب گاروں کی صف میں باادب ایک بے جان مگر التسادہ اسیا بن جاؤ ۔
ماما قدیر بلوچ نے مزید کہا کہ بلوچستان میں سرچ آپریشن کے نام پر بربریت بلوچ سیاسی ورکروں طلبا کی جبری اغوا، مسخ شدہ لاشوں اور بلوچ آبادیوں پر بمباری سے پاکستانی پارلیمنٹ کے دلدارہ بھی پیش پیش نظر آ رہے ہیں۔ بلوچستان میں بلوچ عوام پر جو ظلم جبر کی تاریخ رقم کردی گئی ہے جہاں ہر گھر سے کوئی نہ کوئی شہید اور جبری لاپتہ ہوا ہے جن میں زیادہ تر تعداد بچوں اور خواتین کی ہے آج بلوچوں کی انتھک پرامن جدجہد بلوچ شہدا جبری لاپتہ کی قربانیوں کی وجہ سے آج دنیا کم و بیش بلوچستان کو ایک مقبوضہ ملک ماننے کے قریب ہے جوکہ پرامن جدجہد کی بڑی کامیابی قرار دی جا سکتی ہے۔ آج دنیا کی بڑی طاقتیں ڈھکی چپی الفاظوں میں بلوچ قوم کی پرامن جدجہد کی حمایت کرنے کی جانب قدم بڑھا رہے ہیں۔