ڈیرہ بگٹی میں فوجی آپریشن
ٹی بی پی اداریہ
ڈیرہ بگٹی کا شمار بلوچستان کے سب سے پسماندہ اور شورش زدہ اضلاع میں ہوتا ہے۔ فوجی آمر جنرل پرویز مشرف نے بلوچستان میں خونی جنگ مسلط کی جس سے ڈیرہ بگٹی اور کوہلو سب سے زیادہ متاثر ہوئے، لاکھوں لوگ مہاجرت پر مجبور ہوئے، ہزاروں لوگ جبری گمشدگی کا نشانہ بنائے گئے اور سینکڑوں قتل کردیئے گئے۔ پاکستان میں فوجی آمریت کو پندرہ سال گزر گئے اور پیپلز پارٹی، مسلم لیگ نون اور تحریک انصاف کی حکومتیں بنیں اور ختم ہوگئیں لیکن ڈیرہ بگٹی کے مخدوش حالات میں بہتری نہ آسکی۔
حالیہ دنوں بلوچ لبریشن ٹائیگر نے سوئی سے سبی جاتے ہوئے چھ فٹبال کھلاڑیوں کو اغوا کرلیا، جس کے بعد ڈیرہ بگٹی میں وسیع پیمانے پر فوجی آپریشن شروع کیا گیا۔ پاکستان فوج کے بارہویں کور کے کمانڈر آصف غفور اور آئی جی فرنٹیئر کور بلوچستان نے ڈیرہ بگٹی کا دورہ کیا ہے اور قوم پرست جماعتیں خدشہ ظاہر کررہے ہیں کہ مذکورہ افسران کا دورہ فوجی آپریشن کو مذید وسعت دینے کا باعث بنے گا۔
فوجی آپریشن میں سوئی تحصیل کے مختلف علاقوں میں گھروں پر چھاپے مارے جارہے ہیں، کئی علاقوں میں گھر جلائے گئے ہیں اور لوگوں کو جبری مہاجرت پر مجبور کرنے کے بھی اطلاعات ہیں۔ ڈیرہ بگٹی کے مختلف علاقے فوج کے محاصرے میں ہیں اور متعدد افراد جبری گمشدہ کردیئے گئے ہیں۔
پاکستان کے نگران وزیر داخلہ سرفراز بگٹی پر مسلسل اپنے مخالفین پر طاقت کے بے دریغ استعمال کے الزامات لگتے رہے ہیں اور بلوچستان میں نگران حکومت آنے کے بعد جبری گمشدگیوں میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ فوجی آپریشنوں اور بلوچ قوم پر جبر سے بلوچستان کے حالات میں بہتری کے بجائے ابتری آئے گی۔ بلوچ مسئلے کو جبر و استبداد سے دبانے کی کوششیں پہلے بھی ناکام ہوئی ہے اور اب بھی طاقت کے بے دریغ استعمال سے مسائل حل نہیں ہونگے بلکہ بڑھیں گی۔