نگورنو کاراباخ کے علیحدگی پسند ہتھیار ڈالتے ہوئے

568

نگورنو کاراباخ کے علیحدگی پسند ہفتے کے روز ہتھیار ڈال کر آذربائیجان کے حکام سے امن بات چیت میں مصروف ہیں۔ اس سے قبل آذری حکومت نے ہتھیار ڈالنے والوں کے لیے عام معافی کا اعلان کیا تھا۔

آذربائیجان کی فوج کے تیز رفتار آپریشن اور ہتھیار ڈالنے والے علیحدگی پسندوں کے لیے عام معافی کے اعلان کے بعد ہفتے کے روز آرمینیائی نسل علیحدگی پسندوں نے آذری حکام کے ساتھ بات چیت شروع کر دی ہے۔ اگر یہ سیزفائر قائم رہتا ہے تو قفقاذ خطے کے اس طویل تنازعے کا خاتمہ بھی ہو جائے گا۔ سابقہ سوویت یونین کے انہدام کے بعد سے آرمینیا اور آذربائیجان کے درمیان نگورنوکاراباخ کا خطہ مسلسل کشیدگی کا باعث رہا ہے۔ گزشتہ برس اس علاقے میں دونوں ممالک کے درمیان جنگ بھی ہوئی تھی۔ تاہم آذربائیجان کی جانب سے اس علاقے پر قبضے اور محاصرے کے بعد آرمینیا نے نگورنوکاراباخ پر آذربائیجان کی ملکیت تسلیم کر لی تھی۔

جمعے کے روز ماسکو حکومت نے تصدیق کی تھی کہ باغی سب سے پہلے اپنے ہتھیار ڈالیں گے اور یہ عمل رواں ویک اینڈ تک جاری رہے گا۔ اس عمل میں روسی امن مشن معاونت بھی فراہم کر رہا ہے۔

دوسری جانب جرمنی نے مطالبہ کیا ہے کہ نگورنوکاراباخ کے پہاڑی خطے میں بسنے والے عام شہریوں کے حقوق کی یقینی بنائے جائیں۔ بین الاقوامی برادری کو خدشات ہیں کہ اس خطے میں بسنے والے آرمینائی نسل باشندوں کو شدید نوعیت کے مسائل ہو سکتے ہیں۔

امریکی کانگریس کا ایک وفد آرمینیا کے وزیراعظم نِکول پاشینیان سے ملاقات کر رہا ہے۔ آرمینیا میں قائم امریکی سفارت خانے کے مطابق اس ملاقات میں آذربائیجان کے حالیہ عسکری اقدامات اور ان کا ناگورنوکاراباخ کی آرمینیائی آبادی پر اثرات کا جائزہ لیا جائے گا۔

کئی دہائیوں سے جاری اس تنازعے میں آرمینیا اور آذربائیجان، دونوں ایک دوسرے پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے الزامات عائد کرتے رہے ہیں۔ رواں ہفتے آذربائیجان کے عسکری آپریشن کی وجہ سے ہزاروں آرمینائی نسل باشندوں کو بجلی کی فراہمی معطل ہو گئی تھی۔

یہ بات اہم ہے کہ آذربائیجان نے نگورنوکاراباخ کو آرمینیا سے ملانے والی واحد سڑک بند کر رکھی ہے، جس کی وجہ سے اس علاقے میں شہری نقل و حرکت متاثر ہوئی ہے۔ بین الاقوامی برادری دباؤ ڈال رہی ہے کہ آذربائیجان یہ سڑک جلد از جلد کھولے۔