مذہبی پیروکار مذہب کو ریاست کے ہاتھوں سیاسی اور متشدد پالیسی کے طور پر استعمال نہ ہونے دیں۔ این ڈی پی

113

نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی کے ترجمان نے مستونگ واقعہ پر ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ یہ واقعہ اپنی نوعیت کا پہلا اور آخری واقعہ نہیں ہے بلکہ ایک تسلسل کے ساتھ بلوچستان میں مذہب کو ریاست ایک سیاسی اور متشدد پالیسی کے طور پر استعمال کرتی آ رہی ہے ۔ بدقسمتی یہ ہے کہ مذہب کے پیروکار بھی جن میں اکثریت اس ریاستی پالیسی کو آگے لے جانے میں برابر کے شریک ہیں۔

ترجمان نے کہا کہ مستونگ واقعہ پر جتنا افسوس کیا جائے اور اس کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے ، لہذا ایسے واقعات کی تدارک کیلئے بلوچ سرزمین سے جڑے لوگوں کو ، قوم پرست پارٹیوں سمیت مذہبی پیروکاروں ، دانشوروں کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا کہ وہ بلوچ معاشرہ اور بلوچ سرزمین کو کیسے ریاست اور ریاستی اداروں کو ان قوم دشمن پالیسوں سے روکتے ہیں ، کیونکہ مذھب کے نام پر ریاست اپنی نسل کش اور متشدد پالیسیوں کو دوام بخش رہی ہے ، جس کی وجہ سے لوگ مذہب سے متنفر ہوتے جا رہے ہیں ۔

ترجمان نے کہا کہ بنیادی طور پر دیکھا جائے تو جتنے بھی تاریخ دان ، محققین نے بلوچ قوم اور بلوچ معاشرے کے حوالے سے جتنے بھی تحقیق کیے ہیں وہ تاریخی ، جغرافیائی، تہذیبی اور ثقافتی طور پر کیے ہیں ، نہ کہ مذہبی بنیادوں پر اس سے یہی ظاہر ہوتا ہے بلوچ معاشرے میں مذہب ایک معاشرتی عنصر کے طور پر کبھی بھی نہ رہی ہے ، اگر آج بلوچ معاشرے میں مذھب کو جس طرح معاشرتی عنصر کے طور پر یا سیاسی پالیسی کے طور پر جس طرح استعمال کیا جا رہا ہے اور بلوچ سرزمین پر بسے لوگوں کا جس طرح مذہب کے نام پر قتل عام کیا جا رہا ہے ان سب کا تعلق اس نومولود ریاست اور ان کے اداروں کے ساتھ جڑا ہے ۔

ترجمان نے اپنے بیان کے آخر میں کہا کہ بلوچ قوم پرست پارٹیوں سمیت مذہبی پیروکاروں کو چاہیے کہ وہ اس مذہب کو اس ریاست کے ہاتھوں نسل کش اور متشدد پالیسی کے طور پر استعمال نہ ہونے دے ۔