مبارک قاضی کی پچاس سالہ شاعری انقلاب اور مزاحمت سے وابستہ ہے – ڈاکٹر نسیم بلوچ

224

مبارک قاضی کی پچاس سالہ شاعری کا سفر بلوچ کے رنگ میں رچا ہے اس لیے آج ان کی وفات پر بلوچ قوم سوگ میں ہے۔

یہ باتیں بلوچ نیشنل موومنٹ کی طرف سے منعقدہایکٹیوسٹ اسمبلی‘ ( جھدکارانی پتر) کی نشست سے خطاب کرتے ہوئے پارٹی کےچیئرمین ڈاکٹرنسیم بلوچ نے کیں۔

پارٹی کے سینئرجوائنٹ سیکریٹری جنرل چیئرمین کمال بلوچ کی طرف سے منعقد کیے گئے اس پروگرام کا آغاز مبارک قاضی کےاحترام میں دو منٹ کی خاموشی سے ہوا۔ بی این ایم کے ممبران اور کابینہ کے ذمہ داران نے مبارک قاضی کے کردار اور ادبی خدماتپر انھیں خراج تحسین اور خراج عقیدت پیش کیا۔

ڈاکٹرنسیم نے کہا اسی کی دہائی سے لے کر موجودہ زمانے تک، مبارک قاضی کی قریباً پچاس سال کی شاعری کے سفر میں ان کیشاعری انقلاب ، مزاحمت اور بلوچ کے رنگ میں رچی شاعری تھی۔ قاضی ان افراد میں سے تھے جو خود بھی قومی سیاست میںشامل تھے، جیل کاٹی ، تشدد برداشت کیا۔ان کی جہد سے وابستگی کی ایک نشانی ان کے بے مثل فرزند ڈاکٹر کمبر قاضی تھے کہانھوں نے بھی مزاحمت کی راہ اپنائی اور شاعری میں بھی اپنی اہلیت کا تجربہ کیا۔انھیں مبارک قاضی کی طرف سے ترغیب،حوصلہ افزائی اور تربیت ملی تھی۔ یہ بھی قاضی کی مزاحمت میں شمولیت کی مثال ہے۔

انھوں نے کہا آج سوشل میڈیا کا زمانہ ہے ، ہم دیکھ رہے ہیں کہ بلوچ قاضی کی موت سے پریشان ہیں۔ وہ قاضی جو مختلف کردارکے مالک تھے، وہ جو منھ پر بات کہنے والے شخصیت تھے۔انھوں نے ہمیشہ اپنی بات بغیرکسی لگی لپٹی کے اپنے مکمل جذبات کےساتھ کہی۔کسی کی خاطر کرنا، جھوٹ بولنا اور کسی کے پیٹھ پیچھے اس کی بات کرنا قاضی سے کوسوں دور تھے۔ ان کی انہیخوبیوں کی وجہ سے وہ عوام کو عزیز تھے ۔ ان کے دوسرے فعل کہ لوگ کہتے تھے یہ ہمیشہ ہاتھ میں شراب کی بوتل لے کر گھومتےہیں ، آج ان باتوں کو لوگ بھول رہے ہیں کیونکہ ان میں اور ہزاروں خوبیاں تھی جو اس طرح کی چیزوں کو ڈھانپتی تھیں۔

بی این ایم کے چیئرمین نے مبارک قاضی کے ساتھ بلوچ قوم کی محبت کی مثال دیتے ہوئے کہا آج آپ نے دیکھا کہ پسنی میں انجمنتاجران نے ان کے احترام میں اپنی دکانیں بند کی ہیں، یہ کام پورے بلوچستان میں ہونا چاہیے تھا۔ تمام شعبہ ہائے زندگی کے لوگوںنے ان کی وفات پر اپنے غم کا اظہار کیا ہے۔ان کا عظیم الشان کردار تھا کہ آج وہ اس طرح یاد کیے جاتے ہیں۔