ماں اسے مت جگاؤ!
تحریر: محمد خان داؤد
دی بلوچستان پوسٹ
ارون دھتی رائے کا نیا ناولThe Ministry of Utmost Happinessان الفاظ سے شروع ہوتا ہے کہ
”جب موسیٰ آیا تو وہ سوئی ہوئی تھی۔وہ اس کے قریب آلتی پالتی مار کر بیٹھ گیا۔اور دیر تک اس خوابیدہ چھرے کو تکتا رہا دل میں اس تمنا کے ساتھ کہ کاش وہ اسے بہتر دنیا میں بیدار کر سکے!“
ماں اس کا خوابیدہ چہرہ چوم رہی ہے اور سوچ رہی ہے کہ اس اور کون سی دنیا میں بیدا کرے؟
پر کیا میں اپنی بات ارون دھتی رائے کے مذکورہ الفاظوں سے شروع کروں؟
یا اس بات سے کہ جب بھی وہ ماں کے دامن سے لپٹتا۔ماں اسے محبت سے دامن گیر ہو تی اس کے سانولے گال چومتی اور اسے کہتی
”تم میں سے تو گرمیوں کے گلاب جیسی خوشبو آ رہی ہے!“
اب ماں ا س کا خوابیدہ چھرہ چوم رہی ہے پر نہیں معلوم کہ اس کے ٹھنڈے جسم سے گرمیوں کے گلابوں جیسی خوشبو آ رہی ہے یا لہو لہو کی؟!
اس کی لاش انگوروں کے باغ سے ملی ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اس کے جسم سے مہ کے خوشبو آتی انگور رس کی خوشبو آتی پر نہیں معلوم کہ بندوق سے گھائل وجودوں کے جسموں سے کون سی خوشبو آتی ہے؟اور یہ بھی نہیں معلوم کہ مائیں ان کے چہروں کے برابر بیٹھ کرکن الفاظوں میں بین کرتی ہیں؟اور یہ بھی نہیں معلوم کہ سرد جسموں کے کانوں میں مائیں کیا سرگوشیاں کرتی ہیں؟
یا میں اپنی بات ان الفاظ سے شروع کروں جن الفاظوں میں درد کم اور امید زیا دہ ہے
جب وہ ایک سال سے لاپتہ تھا۔ماں سانول کے عشق میں روڈوں پر رُل رہی تھی۔پھر اس کی لاش انگور کے باغ سے مل گئی۔اس کی لاش گھر لائی گئی۔تو اس کی مٹھیوں میں جو موت کے تشنج سے بھنچی ہوئی تھیں۔ان ہاتھوں کی مٹھیوں میں مٹی بھری ہوئی تھی۔اور ان کی انگلیوں کے بیچ سے انگور کے پھول اُگ آئے تھے۔
ماں اسے بیدار کرنا چاہتی ہے وہ نہیں ہوتا۔ماں اسے بتانا چاہتی ہے کہ ”آج اس کے جسم سے بس گرمیوں کے گلاب کی خوشبو نہیں آ رہی۔پر سرد لہو کی خوشبو بھی آ رہی ہے اور بارود کی بو کی بھی!“
ما ں آج اسے جگانا چاہتی ہے اور اسے یہ بتانا چاہتی ہے کہ بس بارود کی آگ سے کپڑے نہیں جلتے!وجود بھی جل جاتا ہے۔ماں اسے جگانا چاہتی ہے اور اسے یہ بتانا چاہتی ہے کہ بندوق کی گولی بس کپڑے نہیں پھاڑتی پر جسم بھی پھاڑ دیتی ہے،بس جسم نہیں پھاڑتی پر وہ دل بھی گھائل کر دیتی ہے جو دھڑکتا کسی اور جسم میں ہے اور مرتا کسی اور جسم میں ہے!
ماں اس کے کانوں میں سرگوشیاں کر رہی ہے۔ماں شاید اسے ابدی نیند سے جگا بھی دے
پر سوال یہ ہے کہ ماں کے سامنے اب اور کون سی بہتر دنیا ہے جس میں اسے جگائے؟
کم از کم از دنیا میں تو نہیں!
اس دنیا میں درد کے سوا کیا ہے؟اور اس ماں کے پاس محبت کے سوا کیا ہے؟!
ایسی محبت جس محبت کے لیے فیض نے لکھا تھا کہ
”میرے پاس بس محبت ہے پاس آؤ تقسیم کر لیں!“
مائیں تو دھرتی پر محبت تقسیم کرتی رہیں ہیں۔گرمیوں کی خوشبو جیسے گلاب جنتی رہی ہیں۔اور یہ دنیا ان گرمیوں کی خوشبو والے گلابوں کے جسموں میں بارود بھرتی رہی ہے!
مائیں تو دعاؤں میں التجاؤں میں اپنے سر کے پرچم پھیلاتی رہی ہیں اور یہ دنیان ان سر کے پرچموں کو آگ لگا تی رہی ہے۔پھر کیا بس وہ سروں کے پرچم جلتے ہیں؟
یہ ماں کیا کرے؟اپنے سانول کو کیسے جگائے اور اس دنیا سے اور کون سی بہتر دنیا ہے جس میں جگائے جس میں انگور کے کھیت تو ہوں پر ان کھیتوں میں ماؤں کے لال لہو لہو ہوکر نہ ملیں!انگور کی مہ تو ہو پر کوئی انگور ایسا نہ ہو جو لہو لہو ہوکر ان جسموں سے چپک جائے جو جسم بندوق سے گھائل ہو کر انگور کے کھیت میں گرے اور کھیت کے تمام انگور درد سے سرخ ہو جائیں!
ایسی دنیا کہاں ہے؟جس دنیا میں مائیں گرمیوں جیسے گلاب جنیں پر وہ کبھی جوان نہ ہوں
مائیں بوڑھی ہو جائیں مر جائیں پر گرمیوں کے گلاب بچے ہی رہیں کیوں کہ یہ دھرتی جوانوں کو کھا جا تی ہے نگل جا تی ہے
ایسی دنیا کہاں ہے جہاں معصوم بچے گھیری نیند میں سوتے رہیں اور مائیں انہیں کبھی نہ جگائیں کیوں کہ جاگتے بچوں کو یہ دنیا ڈس لیتی ہے
یہ دنیا تو بس ماؤں کو مسافر کر دیتی ہے۔رول دیتی ہے۔مائیں رُل جا تی ہے
اس دنیا میں تو ماؤں اور دھرتی سے محبت بڑا جرم بن چکا ہے
وہ گرمیوں کے گلاب جیسے انسانوں کا بھی کیا قصور تھا
بس ”محبت!“
پر جب وہ مارے جا تے ہیں تو تب بھی ان کے بھینچی مٹھیوں میں دھرتی کی مٹی رہ جا تی ہے جن مٹھیوں کو کھولنے پر ہتھیلیوں میں انگور کے پھول،سرسوں کے پھول اُگ آتے ہیں کاش ان ہاتھوں میں وہ دامن بھی رہ جائے جس دامن کو اس دنیا نے جلا ڈالا ہے۔دامن نہیں تو دامن خاک ہی رہ جائے جسے دنیا نے جلا ڈالا ہے
ماں اب اسے مت جگاؤ
آپ کے پاس سرگوشیاں کرنے کو تو بہت کچھ ہے
پر اب ایسی کوئی بہتر دنیا نہیں جہاں وہ جی سکے
ماں اب اس مت جگاؤ
اس کے پاس تو کہنے کو بہت کچھ ہے
پر وہ پھر سے آپ کو رول دے گا رُلا دے گا
ماں اسے مت جگاو
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔