فلسطینیوں کے حقوق، دو ریاستی حل کے بغیر امن قائم نہیں ہو سکتا – محمود عباس

130

فلسطینی رہنماء محمود عباس نے اقوامِ عالم کو خبر دار کیا ہے کہ دو ریاستی حل کے بغیر مشرقِ وسطیٰ میں امن قائم نہیں ہوسکتا۔

اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب میں محمود عباس نے کہا کہ جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ فلسطینی عوام کے مکمل، جائز قومی حقوق کی تعبیر کے بغیر مشرقِ وسطیٰ میں امن قائم ہو سکتا ہے، وہ غلطی پر ہوں گے۔

طویل تجربہ رکھنے والے 87 سالہ رہنما نے اس سلسلے میں پھر سے مذاکرات شروع کرنے اور اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس سے فلسطینی ریاست کے قیام کے لیے بین الاقوامی کانفرنس بلانے کی اپیل کی۔

محمود عباس کی جانب سے یہ اپیل ایک ایسے موقع پر کی گئی ہے جب سعودی عرب اسرائیل کو تسلیم کرنے پر غور کر رہا ہے اور اس سلسلے میں سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے امریکی نشریاتی ادارے فاکس نیوز کو ایک حالیہ انٹرویو میں کہا کہ اسرائیل سے ہونے والے مذاکرات میں اب تک ہونے والی پیش رفت کافی مثبت رہی ہے لیکن سعودی عرب کے لیے فلسطینیوں کا معاملہ بہت زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔

عالمی ادارے سے خطاب میں فلسطینی رہنما نے کہا کہ “اقوامِ متحدہ کی کانفرنس دو ریاستی حل کو بچانے، صورتِ حال کو مزید سنگینی سے بگڑنے، خطے اور پوری دنیا کی سلامتی و استحکام کو خطرے میں ڈالنے سے روکنے کا آخری موقع ہو سکتی ہے۔”

محمود عباس کے خطاب سے ایک روز قبل اسراِئیلی وزیرِ اعظم نیتن یاہو نے امریکی صدر جو بائیڈن کے ساتھ ملاقات میں سعودی عرب کو معمول پر لانے پر بات کی تھی۔

امریکہ تاریخی طور پر دونوں فریقوں کے درمیان امن قائم کرنے کے لیے کردار ادار کرتا رہا ہے۔ صدر جو بائیڈن نے بدھ کو نیتن یاہو کے ساتھ بات چیت کے ذریعے دو ریاستی حل کے راستے کو محفوظ رکھنے کے بارے میں بات کی تھی۔

محمود عباس کی تقریر کے دوران ایک اسرائیلی سفارت کار نے جنرل اسمبلی سے اس وقت واک آؤٹ کیا جب فلسطینی رہنما نے اسرائیل کی ‘نسل پرستی’ کی پالیسیوں پر بین الاقوامی ‘استثنیٰ’ کی مذمت کی۔ یہ بیانیہ یہودی ریاست کو مشتعل کرتا ہے۔

محمود عباس نے کہا کہ اسرائیل کے ‘نسل پرست، دہشت گرد آباد کار ہمارے لوگوں کو ڈرانے، مارنے، گھروں اور املاک کو تباہ کرنے، ہمارے پیسے اور وسائل کو چوری کرنے کے لیے جاری رکھے ہوئے ہیں۔”

اقوامِ متحدہ میں اسرائیل کے سفیر گیلاد اردان نے محمود عباس کے اس حالیہ بیان کی طرف اشارہ کیا جس میں ان کا کہنا تھا کہ ” نازی جرمنی نے دوسری جنگِ عظیم کے وقت ہولوکاسٹ میں یہودیوں کو ان کے مذہب کی وجہ سے نہیں بلکہ ان کے سماجی کردار کی وجہ سے مارا تھا۔”

محمود عباس کے مذکورہ بیان پر اسرائیل سمیت کئی دیگر ملکوں کے رہنماؤں نے مذمت کی تھی۔ اردن نے کہا تھا کہ محمود عباس نے ثابت کر دیا ہے کہ وہ “امن کے لیے کوئی شراکت دار نہیں ہیں اور وہ حقیقت سے مکمل طور پر لاتعلق اور غیر متعلق ہیں۔”

دوسری جانب سعودی عرب نے جنرل اسمبلی کے اجلاس کے موقع پر پیر کو یورپی یونین، اردن اور مصر کے ساتھ مشترکہ طور پر منعقد ہونے والے مذاکرات میں حصہ لیا جس میں امن عمل میں جان ڈالنے کی کوشش کی گئی۔

اسرائیل اور امریکہ کا خیال ہے کہ سعودی عرب کے ساتھ یہودی ریاست کے تعلقات کا معمول پر آنا مشرق وسطیٰ کے لیے گیم چینجر ہوگا۔

یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کے سربراہ جوزپ بوریل کا کہنا ہے کہ اسرائیل اور فلسطینیوں کے تنازع کا واحد قابلِ عمل حل دو ریاستوں کے قیام میں ہے۔

اسرائیلی وزیرِ اعظم نیتن یاہو جمعے کو جنرل اسمبلی سے خطاب کر یں گے۔ ان کے بقول مشرقِ وسطیٰ کی ترجیحات آگے بڑھی ہیں اور وہ امید کرتے ہیں کہ عرب ریاستوں کے ساتھ معمول پر آنا فلسطینیوں کے ساتھ عمل کو پس پشت ڈال دے گا۔