سیاست آج ہمارے معاشرے کےلیے نہایت ہی ناگزیر عمل بن چکا ہے۔بساک

172

بلوچ اسٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی نے کہا ہے کہ صباء ادبی میلہ کامیابی کے ساتھ منعقد کیا گیا ، جس میں شہید پروفیسر صباء دشتیاری کو خراج ِعقیدت پیش کرنے کیلے مختلف طبقہ فکر سے تعلق رکھنے والے افراد نے شرکت کی اور اپنے خیالات کا اظہار کیا۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ فِسٹیول میں مختلف سیگمنٹس کا اہتمام کیا گیا تھا ، جن میں ادبی و سیاسی شخصیات کی جانب سے تقاریر، پینل ڈسکشن، ٹیبلو، پروفیسر صباء کی زندگی پر ڈاکومنٹری، آرٹس ایکزیبیشن، شاعری دیوان کے ساتھ محفلِ موسیقی کا بھی اہتمام کیا گیا تھا ۔ فیسٹیول کے مہمان اسپیکرز میں ڈاکٹر ماہرنگ بلوچ، پروفیسر اکبر گمشاد اور تنظیم کے مرکزی کمیتی کے ممبر فوزیہ بلوچ تھے۔

مہمان اسپیکرز نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ صباء ہمارے لیے وہ چراغ ہیں جنہوں اپنی فکر و سوچ سے بلوچ معاشرے میں شعور پھیلائی۔ ادب اور زبان سمیت سیاست میں صباٗ نے جو کار ہائے سر انجام دیئے شاید کوئی بھی ادارہ ان کاموں کو کرنے میں کامیاب نہ ہوتا ۔ صبا ایک امید ہے جو کہ آج تک ہمارے معاشرے میں دیے جلا رہا ہے اور ہم سب کے دلوں میں زندہ ہے۔

انہوں نے کہا کہ آج کا یہ بڑا ادبی میلہ اس بات کو واضح کرتی ہے کہ بلوچ نوجوان کبھی اپنے رہنماوں کو بھولے نہیں ہیں۔ صباء اپنے فلسفے پر کاربند رہا اور آج کا یہ میلہ صباء کے خواب کو پورا کرنے کےلیے بہترین قدم ہے۔ اور صباء کے خواب کو پورا کرنا بطور بلوچ اور بلوچ نوجوان ہم سب پر فرض ہے کیونکہ صباء جیسے دانشور صدیوں میں ہی کسی قوم میں پیدا ہوتے ہیں۔

میلے کا دوسرا حصہ پینل بات چیت سیاست اور ادب پر تھا جس میں موڈیریٹر مرکزی وائس چئیرمین رفیق بلوچ تھے اور بلوچ لکھاری اور ادیب بالاچ بالی، طاہر حکیم، اور الطاف بلوچ پینلسٹ تھے۔ پینل ڈسکشن میں مختلف پہلوؤں پر سیرحاصل گفتگو میں پینلسٹ نے کہا کہ صباء نے بلوچی زبان کی ترقی اور ترویج کےلیے بہت جہدوجہد کیا جس میں لائیبریری کا قیام ان کے گراں قدر خدمات میں سے ایک ہے۔ اس کے علاوہ آپ نے بہت ساری کتابیں بھی لکھی ہیں۔

مزید گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ سیاست آج ہمارے معاشرے کےلیے نہایت ہی ناگزیر عمل بن چکا ہے۔ سیاست اور ادب کے بغیر ہمارا معاشرہ نامکمل ہے۔ صباء نے بھی اس بات کو یقنی بنایا تھا کہ ادب کے ساتھ سیاست بھی ضروری ہے۔ بلکہ سیاست اور ادب ایک دوسرے کےلیے لازم و ملزوم ہیں۔

پروگرام کے باقی حصوں میں بلوچستان کتاب کاروان کے نام پر کتاب اسٹال کا اہتمام کیا گیا جس میں مختلف موضوعات پر مختلف کتابیں اسٹالوں پر رکھے گئے، اور بڑی تعداد میں طلباء و طالبات نے اپنے پسند کی کتابیں خریدیں جو کہ ایک کتاب دوست معاشرہ ہونے کا واضح ثبوت ہے۔

اس کے علاوہ پروگرام میں آرٹ ایگزیبیشن کا بھی اہتمام کیا گیا جس میں مختلف آرٹسٹس پروفیسر عبدالحفیظ گوہر جی، نور فاطمہ، ربیعہ بلوچ، ماہین بلوچ، سعید بلوچ، مہیم بلوچ، ہدایت بلوچ، ملیحہ بلوچ، نے اپنے فن پارے نمائش کےلیے پیش کیے۔

پروگرام کا تیسرا حصہ شعرو شاعری دیوان تھا جس میں بلوچی زبان کے مشہور شاعروں نے اپنے شعر سامعین کے سامنے پیش کیے۔ شاعروں میں اکبر گمشاد، صادق راہچار، زبیر واھگ، زاکر زبیر، اور دوسرے نوجوان شاعروں نے بھرپور حصہ لیا۔پروگرام کا آخری حصہ موسیقی پر مشتعمل تھا جس میں بیبگر بلوچ، نادر اسلم، مسرور بلوچ، کمال بلوچ، مہران دلاوری نے اپنے خوبصورت آواز سے میلو کو چار چاند لگادیئے۔

اور میلے میں پنجگور کے باشعور عوام جن میں خواتیں کی بڑی تعداد شامل تھی شرکت کیں جبکہ دوسرے طبقوں سے تعلق رکھنے والے افراد نے بھی بھرپور حصہ لیا ۔

ادبی میلہ کے منتظمین کا کہنا تھا کہ صباء ادبی میلہ پنجگور میں ایک بڑی کامیابی ہے۔

ہم فِسٹیول کو کامیاب بنانے والے تمام کردارواں کا شکریہ ادا کرتے ہیں اور عہد کرتے ہیں کہ بلوچستان کے کونے کونے میں صباء ادبی میلوں کا انعقاد کیا جائے گا، تاکہ بلوچ نوجوانوں کو صباء کے خواب کو فکری اور عملی حوالے سے پورا کرنے کا موقع مل سکے ۔