جلیلہ ۔ محمد خان داؤد

92

جلیلہ
تحریر: محمد خان داؤد
دی بلوچستان پوسٹ

جلیلہ حیدر کی زندگی لطیف کی اس صدا جیسی رہی ہے کہ
،،جائیس تہ سور
سامائیس تہ سُکھ وہا
اھئیے بئی پور مون نمانی نصیب تھیا!،،
،،پیدا ہوئی تو درد
بڑی ہوئی تو سُکھ گئے
یہی دو درد میرا نصیب ٹھیرے،،
وہ جب بڑی ہو رہی تھی تو بابا گذر گئے اور جب ہوش سنبھالا تو ہزارہ نوجوان ایسے جان سے جا رہے تھے، جیسے وہ انسان نہ ہوں دنبے ہوں جو خیر کے نام پر قربان کیے جا تے ہیں۔ دستارِ و فضیلت والے ہی ان جوانوں کی جان کے دشمن ٹھیرے۔اور ان جوانوں کو بھی پیٹ کا جہنم بھرنا ہوتا تھا۔اگر وہ اکیلا جہنم ہوتا تو ہوسکتا ہے وہ جوان صوفی بن کر پہاڑوں کی غفاؤں میں جا بستے جہاں بس پتھر،اور اندھی غفائیں ہو تی ہیں اور ذکرِ یار! اور وہ ان پہاڑی غفاؤں میں ذکرِ یار میں کھوئے رہتے۔پر ایسا بھی نہیں ان کے ساتھ تو کئی کئی جہنم اور بھی بار گراں کی طرح سوار رہتا۔وہ صبح صبح سبزی منڈی ،مارکیٹوں،بازاروں،کو نہ جا تے تو اور کیا کرتے۔پر وہ سبزی منڈیوں،مارکیٹوں اور بازاروں سے گھروں کو نہیں لوٹے۔
آنکھیں آج تک منتظر ہیں!
دردوں پر دید رُکی ہوئی ہے!
ان کے کپڑے دیواروں پر پرانے کیلڈروں کی ماند ٹنگے ہوئے ہیں!
وہ بچے جو اب بڑے ہوگئے ہیں وہ اپنی ماؤں سے اپنے بابا کا پوچھتے ہیں!
تصویروں پر پھول گیندے کے پھول سجائے جا تے ہیں اور دردوں میں وہی پر سوک جا تے ہیں
جب وہ گھروں کو نہیں لوٹے تو بس ایسا نہیں کہ ان کی بچیوں کے اسکول چھوٹ گئے
پر ان بچیوں کے خواب بھی ان آنکھوں سے چھوٹ گئے
اب نہ وہ بچیاں اسکول میں ہیں اور نہ ان کی آنکھوں میں خواب
اب ان گھروں،ان گھروں کے دروں ،ان گلیوں،ان دلوں،اور ان دیدوں میں کچھ بھی پہلے جیسا نہیں ہے !جہاں درد کا آستان ہوجائے وہاں کچھ بھی پہلے جیسا نہیں رہتا۔
تو ان گلیوں میں پہلے جیسا کیسے ہو سکتا ہے جہاں بچے اسکول جاتے تھے۔مائیں اپنے ہاتھوں میں پلاسٹک کے بیگ لیے بازار،بوڑھے بابا شام گئے اپنے بچوں کی چھوٹے پر ایمان سے بھری دکانوں پر،بچے،بچیاں اسکول اور واپس لوٹتے وقت اپنے ہاتھوں میں کھانے کا ٹپن سجائے ان دکانوں پر جہاں محبت اور محنت کا جنم ہوتا تھا۔
پھر وہاں کچھ نہیں رہا۔دہشت اور وحشت آئی اور وہ سب کچھ لے گئی خوشی بھی اور انسانوں کے جسم بھی!
بند تابوتوں میں جانے والے کہتے رہے ،،ہم اسی دھرتی کے با سی ہیں!،،
پر ان بند تابوتوں والوں کی پکار کس نے سُنی ؟وہ مٹی میں نئی قبروں کا اضافہ کر گئے پر ان قبروں پر تو سُرخ گلاب بھی نہیں کھلے !اگر ان نئی قبروں پر سُرخ گلاب بھی کھلتے تو کون دیکھتا؟سرکاری سرپرستی میں چلنے والی میڈیا تو وہ ،وجود بھی نہیں دیکھاتی تھی جو پھٹے پرانے کپڑے کی ماند پھٹتے تھے اور ان کے جسموں کے تکڑے کپڑوں میں مل جا تے تھے اور کپڑے جسموں میں کچھ معلوم نہیں ہوتا تھا۔
پر کارپوریٹ میڈیا نے کیا دیکھایا؟
پھر ملک کی آنکھ نے دیکھا اور بلوچستان کی آنکھ نے رویا!
پھر بند دروازوں کی دیدوں نے دیکھا اور بند دروازوں کے پیچھے ماؤں نے رویا!
پھرکیمرے کی آنکھ نے دیکھا اور جلیلہ کی آنکھ نے رویا!
جلیلہ اس دکھ کو لیے وہاں بیٹھ گئی تھی جہاں چلتی گاڑیاں بھی نہیں رُکتی تھیں پر جلیلہ جانتی تھی کہ اگر آج وہ اس دکھ کو بند دینے میں کامیاب نہ ہو پائی تو یہ وہشت بھرا دکھ ان گھروں کو بھی بہا لے جائیگا جو گھر اس وحشت سے بچ گئے ہیں جن گھروں کی مائیں ابھی اپنے بچوں کے چلتے پھرتے وجود دیکھ رہی ہیں۔جو بہنیں اپنے بھائیوں کے لیے کھانا بناتی ہیں۔اور ان کی سلامتی کے لیے دعا کرتی ہیں
جلیلہ دکھ کو بند دینے کے لیے وہیں ٹھر گئی۔دکھ بڑھ گیا پر جلیلہ ٹھر گئی۔
جلیلہ نے اس دکھ کو بہت بیان کیا ہے وہ دکھ اب بھی شال کی گلیوں میں گونج رہا ہے
جلیلہ بہت روئی ہے۔ابھی تو اس کے گال بھی ان آنسوؤں سے خشک نہیں ہوئے جو اس نے انسانیت کے خون پر بہائے ہیں۔اب بھی ان کی آنکھیں نم نم سی ہیں!اب بھی اس کے گال تر تر سے ہیں!اب بھی اس کی آواز رندھی رندھی سی ہے!
جلیلہ جو اک سسکی تھی!
جلیلہ جو دکھ کی بارش کی ماند برستی تھی
جلیلہ جو درد کی دانھن تھی
جلیلہ جو ہزارہ ماؤں کی آہ تھی کُوک تھی
جلیلہ جو سسئی کے بہن تھی
جلیلہ نے بس مائیک تھام کر اپنا درد ہی نہیں کہا
پر جلیلہ نے اپنے ہاتھوں سے اپنے ہزارہ بھائیوں کے آنسو بھی پونچھے ہیں
جلیلہ نے بس اپنی بہوں کے بہتے آنسو صاف نہیں کیے
پر اپنے ہاتھوں سے ان کے سروں سے گرتے دوپٹے بھی ٹھیک کیے ہیں
جلیلہ کے ہاتھوں نے ان گالوں پر ہزاروں بادل بنائے جو اب برس رہے ہیں
جلیلہ کے ہاتھوں نے ان روتے گالوں پر ہزاروں تتلیاں بنائیں جو اب ان گالوں سے اُڑ کر
ویانا پہنچتی ہیں اور اپنے ہونے کا پتا دیتی ہیں
جلیلہ لطیف کا سُر بھی ہے
اور مادھو لال حسین کا لکھ جانے سے بچ جانے والا میٹھا دکھ بھی
وہ سُر اور میٹھا دُکھ ویانا پہنچا
وہ دکھ جو بادل جیسا ہے
اور رات کے آخری پہروں میں برسنے والی بارشوں جیسا ہے
جس بارش میں بس درخت ہی نہیں بھگتے
دل اور نین بھی بھیگتے ہیں جلیلہ جو اہلیانِ ہزارہ کا اکیلا سوگ تھی!
جلیلہ جو وہ واحد آنسو تھی جو ہزارہ کے درد میں بہتا تھا!
جلیلہ جو زخمی روح تھی اور بہت بلکتی تھی!
جلیلہ وہ وقت تھی جو ہزارہ کے درد میں ٹھر سا گیا تھا!
آنسوؤں سے تر گالوں والی اور نم نم سی آنکھوں والی جلیلہ کو یقین تھا کہ اس کی آواز کو سنا جائےگا اور اب وقت آ چکا ہے کہ جلیلہ کی آواز کو سنا جائے پہلے جلیلہ کی آواز کو اس ملک میں سنا گیا اب جلیلہ کی آواز کو بین الاقوامی سطح پر بھی سنا جا رہا ہے۔
جس آواز میں یہ دردوں بھری صدا تھی کہ ،،کسی ماں کا بیٹا قتل نہ ہو کسی ماں کے گال آنسوؤں سے تر نہ ہوں،کوئی محبوبہ سینا کوبی نہ کرے،کوئی بچہ ڈر کر بند تابوتوں کےت پیچھے نہ چلے،کوئی بیٹی ڈر کر اسکول نہ چھوڑے،کوئی بوڑھا شام کو کسی قبر پر بیٹھ کر تسبیح کے دانوں کو نہ پھیرے،کوئی بہن کسی کی تصویر دیکھ کر نہ روئے!،،
جلیلہ حیدر کی یہ پکار سنی گئی اب جلیلہ حیدر کو وہ ادا رے اپنے پاس بلا رہے ہیں جو کسی کے آنسو پونچھ کر یہ پوچھتے ہیں کہ،،بی بی ہم تمہا رے لیے کیا کر سکتے ہیں؟،،
یہی سوال جب ویانا میں جلیلہ حیدر سے کیا جائیگا کہ
،،بی بی ہم تمہا رے لیے کیا کر سکتے ہیں؟!،،
تو جلیلہ حیدر اپنے جواب میں ان سے،،ایبا گروپ،،کا یہ گیت کہے گی کہ
‏I have a dream a song to sing
‏To help me cope with anything
‏If you see the wonder of a fairy tale
‏You can take the future even if you fail
‏I believe in angels
‏Something good in everything I see
‏I believe in angels
‏When I know the time is right for me
‏I ll cross the stream I have a dream,,
،،میرا ایک خواب ہے
اور میں ایک گیت گانا چاہتی ہوں
ایک ایسا خواب،ایک ایسا گیت
جو مجھے ہر مشکل سے نمٹنے میں مدد کرے گا
کاش تم اس حیرت کو دیکھ سکتے
جو پریوں کی کہانیوں میں ہو تی ہے
اگر تم ناکام بھی ہوجاؤ
پھر بھی مستقبل تمہا ری مٹھی میں ہوگا!
میں فرشتوں پر یقین رکھتی ہوں
اور ہر چیز میں اچھا پہلو دیکھتی ہوں
مجھے فرشتوں پر یقین ہے
اور جب میں نے دیکھا کہ یہ مناسب وقت ہے
تو میں اس ندی کو پار کر لوں گی،،


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔