جب تم لوٹو گے – فریدہ بلوچ

216

جب تم لوٹو گے

تحریر: فریدہ بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

راشد جان آج آپ بہت یاد آ رہے ہو، ہمارے ساتھ کا وہ پچپن میں کھیلنا اور کھیل کھیل کے دؤران معصومی جھگڑے، عمر میں آپ ہمسے بڑے تھے اور ہم چھوٹی بہنوں کو پیار سے میک آپ لگاتے سنوارتے اور اسکول لے کر جاتے۔ ہمارا خیال رکھتے اور جب تک اسکولکی چھٹی ہوتی تم وہیں کھڑے رہتے۔  ہمیشہ اپنی چھوٹی بہنوں کا خیال رکھتے مجھے یاد ہے جس چیز پر ہم ضد کرتے تو تم کبھیمنع نہیں کرتے تھے اور ہماری ضرورتوں کے لئے والدین سے ضد کرتے اور کبھی کبھی اپنے ضد منوانے کے لئے ہم سے کہتے کہ اسکےلئے والدین سے ضد کرو تاکے وہ تمھیں لیکر دیں

مجھے اب بھی یاد ہے ایک عید پر تمھاری کوئی فرمائش پوری نہ ہو پائی تو تم ناراض ہوکر چلے گئے اور کافی دیر تک گھر والے تمھیںتلاش کررہے تھے، جب تم واپس گھر لوٹے تو میں نے اپنے کھلونے تمھیں دئے اور کہا رکھ لو آپ کے ساتھ گزرا بچپن آج بھی یاد ہے وہگلی میں کوئی ہم سے جھگڑتا تو ہم تمھارا نام لیکر کہتے کے راشد ہمارا بھائی ہے اور تم سب سے یہی کہتے میرے بہنوں سے جھگڑنامت اسکول میں بھی تم تھے تو کوئی ہمیں کچھ کہنے والا نہیں ہوتا تھا

پچپن کا کھیل ہو یا لڑائی جھگڑے اب جب تم دور ہو تم وہ ہر پل خیالوں میں آجاتے ہو، جب تمھیں یاد کرتے ہیں اور تمھارے وہ تمامشرارتیں ہم سے اپنے اسکول کے کام کروانا سب یاد آجاتا ہے تو دل مزید غمزدہ ہوجاتا ہے

مسجد میں استاد کی لاٹھی جب تمھیں لگتی تو میرے آنسو نکلتے کہیں اسکول میں مار نا پڑے تمھارے ہوم ورک کرتی، چھوٹی تھی تودل میں خیال آجاتا کے بھائی کو مار پڑیگی آج جب تمھیں ریاست نے پس زندان کردیا ہے تو یہی سوچ سوچ کر کلیجا چیر چیر ہوجاتاہے کہ تم کس ازیت سے گزر رہے ہوگے

انسان اپنے کسی چیز کی کھو جانے پر غمذدہ ہوجاتا ہے تم تو ہمارے سب سے پیارے اور ذمہ دار بھائی تھے تمھارا اس طرح ہم سےدور ہونا گوارہ نہیں ہوتا ایک لمحہ ایسے نہیں گزرتا جب تمھارے ساتھ گزرے پل اور باتیں یاد نا آئیں

تمھارے غیر موجودگی میں زندگی کی رفتار تھم سے گئی ہے لیکن تمھاری واپسی کا منتظر آج بھی ہیں کیونکہ انصاف کے خلافآوازوں کو خاموش کرانا ایک غیر ناممکن عمل ہے، آج بھی جب تمھارے نام پر لوگ خوفزدہ ہوکر خاموشی اختیار کرتے ہیں پر والدہ اورماہ زیب ہر بلوچ کے غم میں لائن کے اول میں کھڑے ملتے ہیں یہی تمھارا قصور تھا ہر لائن کے اول میں کھڑے ہوکر انصاف کیلئے آوازبلند کرنا

وقت اور حالات انسان کو سنوارتے ہیں تراشتے ہیں اسکے خوبی اور کمیاں تمام صاف کردیتے ہیں ایسے ہی جب سے تمھیں ہم سے دورکردیا گیا ہے ہم اس جدو جہد میں مظبوط ہوگئے ہیں ہم ٹوٹ نہیں سکتے کیونکہ جب بھی وقت اور حالات ہمیں توڑنے کی کوشش کرتےہیں تو ایک دم یہ خیال آتا ہے ان پانچ سالوں میں تم ایک بار بھی نہیں ٹوٹے اور پھر سے ہم مظبوط ہوجاتے ہیں

بھائی آج جب اپنے اور پرائے اس وقت اور حالات میں پیچھے ہٹ گئے پر ہمیں تمھارے انتظار اور لوٹ آنے کی جستجو ہر پل مظبوطکرتی رہتی ہے اور ہم یہ جنگ جاری رکھینگے جب تک تم واپس نہیں لاتے

تمھارے جبری گمشدگی سے چند روز قبل تم نے اپنی شادی کی تیاریوں کا کہا تھا اور ہم آج بھی اس امید میں تیاریوں میں مصروفہیں کے ایک دن تم واپس آؤگے اور ہم بہنیں تمھیں خود اپنے ہاتھوں مہندی لگائینگے تمھاری شادی کرانے اور اسکی تیاریوں میں ہمسب مصروف ہیں جب لوٹو گے تو سب کچھ تیار پاؤ گے

اور ہاں بھائی اگر یہ الفاظ کبھی پڑھنے کو ملے تو میں بس یہ کہنا چاہتا تھا کے وہ ہمارے پچپن کے لڑائی اور شرارتیں معاف کرنا


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔