بلوچستان کی گہرائیوں میں، جہاں کھردری زمین اور مقامی باشندے ایک مضبوط روحانی رشتے میں ہیں، ایک فوٹوگرافر سامنے آیا ہے جو اس خوبصورت مگر پسماندہ اور جنگ زدہ علاقے کی چھپی ہوئی کہانیاں افشاں کر رہا ہے۔
بلوچستان، جو اپنی جسامتی خوبصورتی اور ثقافتی دولت کی بدولت مشہور ہے، دس سے زیادہ برسوں سے کمانچر بلوچ کی کیمرے کا مرکز رہا ہے۔ اس نے اپنی کیمرے کی عدسی کے ذریعے بلوچستان کے دلفریب مناظر اور عوام کی روزمرہ کی زندگیوں کی ایک مخصوص تصویر کشی کی ہے، جو خوبصورتی اور جدوجہد کی ایک سادہ مگر معنی خیز کہانی پیش کرتا ہے۔
اب، جب اس کا مقابلہ اپنی صحت کی مشکلات سے ہو رہا ہے، کمانچر ایک نیا مرحلہ شروع کر رہا ہے، اس مرحلے میں وہ نہ صرف دنیا کو اپنی فنکاری دکھانا چاہتا ہے بلکہ طبی مدد کے لیے بھی حمایت طلب کر رہا ہے۔
ایک ویژنری فوٹوگرافر
کمانچر بلوچ، جو 25 نومبر 1998 کو بلوچستان کے کیچ ضلع کی تحصیل مند میں پیدا ہوئے، نے ابتدائی طور پر اپنے سادہ موبائل فون کا سہارا لے کر فوٹوگرافی کی دنیا میں قدم رکھا۔ اس نے 2015 میں فوٹوگرافی کو اپنا پیشہ بنایا۔
دی بلوچستان پوسٹ (ٹی بی پی) سے بات چیت کرتے ہوئے، اس نے اپنے وطن کی خوبصورتیوں اور مشکلات کی داستاں دنیا کے سامنے لانے کی عزم اور استقامت کو بیان کیا، حالانکہ اس علاقے میں فوٹوگرافی کے شوقین محدود ہیں۔
“پندرہ سال پہلے میرے پاس ایک موبائل فون تھا، اور اسی وقت سے مجھ میں یہ دلچسپی پیدا ہوئی,” کمانچر نے ٹی بی پی سے شیئر کیا۔ “اس دوران میری خواہش تھی کہ میں کچھ نہ کچھ ریکارڈ کروں اور لوگوں تک پہنچاؤں۔” اس دوران، اس نے مختلف مقامات کا دورہ کیا اور مختلف دلچسپ مناظر اور کہانیاں کیمرے میں قید کیں۔ “”اب یہ شوق اس مقام تک پہنچ گیا ہے کہ میں اسے ایک ذمہ داری سمجھتا ہوں۔”
جب اس سے پوچھا گیا کہ کیا بلوچستان میں فن کا پیشہ آسان ہے، کمانچر نے جواب دیا: “بلوچستان میں فنکار ہمیشہ سے موجود ہیں، لیکن ان کا سامنا مختلف دشواریوں سے ہوتا ہے، اور سب سے بڑی مشکل غربت ہے۔ ہماری عوام، حکومت سمیت، فنکاری کی اہمیت سے واقف نہیں ہیں۔” اس نے مزید بیان کیا کہ ہماری عوام ابھی تک فنکاروں کی قدر کو پہچاننے میں ناکام ہے اور ان کی حمایت نہیں کرتی۔ “ہماری عوام اب بھی فن سے ناواقف ہیں، اور بہت سے لوگ اسے ‘وقت کا زیاں’ سمجھتے ہیں۔ وہ اب بھی نہیں جانتے کہ ایک فوٹوگرافر ایک تصویر کے لئے کتنی محنت کرتا ہے، کتنی دور جاتا ہے، اور پھر ایک منظر تلاش کرنے کا سفر ختم ہوتا ہے۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہمارا معاشرہ زندہ رہے، تو ہمیں اپنے فنکاروں کی اہمیت دینی ہوگی۔”
کمانچر کی فنی ویژن بلوچستان کی خوبصورت مقامات کے ساتھ ساتھ ان لوگوں کی طرف بھی مائل ہے جو اس علاقے کی ثقافتی وراثت کو تشکیل دیتے ہیں۔ اس کا فوکس شاعر، مصنفین اور دیگر نامور شخصیات پر ہے، جو اس علاقے کی ثقافتی بنیادیں قائم کر رہے ہیں۔
بلوچستان کی ثقافتی وراثت: کمانچر کی لینس کی کہانی
کمانچر کی کیمرہ کی آنکھ نے بلوچستان کی لمبائی اور چوڑائی طے کرتے ہوئے اس کے مختلف مناظر کو قید کیا ہے اور خوبصورت علاقے کی مختلف پہلوؤں کو ایک خصوصی انداز میں پیش کیا ہے اس کی تصاویر کوئٹہ کی برفیلی پہاڑی سلسلے سے لے کر گوادر کے خوبصورت ساحلوں تک کا سفر دکھاتی ہیں، یہاں تک کہ مکران کی ‘ پرنسس آف ہوپ ‘ بھی شامل ہے۔
انہوں نے بلوچستان کی خوبصورتی کے ساتھ ساتھ عوام کی محنت، ثقافت اور فنون کو بھی نمایاں کیا۔ اس نے بلوچ عورتوں کی مہارت پر محور کڑھائی اور مردوں کی بنائی ہوئی سوواس اور بلوچی چووٹ کا جوہر اپنی تصاویر میں دکھایا ہے۔ اس کا کام بلوچستان کے 95 فیصد علاقوں کی شاندار کوریج کرتا ہے، جو اس کی عوام کی مضبوطی اور زندہ دلی کا تصویری منظر نامہ بناتا ہے۔ کمانچر کی تصاویر بلوچستان کی کرشماتی، لیکن جدوجہد سے نمودار خوبصورتی کا عکس ہیں۔
بلوچستان ایک ایسی زمین ہے جو قدرتی وسائل سے مالامال ہے، مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ یہ علاقہ دنیا کی سب سے محروم علاقوں میں شامل ہے، جو سالوں سے جنگ اور معاشی مشکلات کی بنا پر متاثر ہے۔ کمانچر نے اس علاقے کی عوام کی مضبوطی اور عزم کو ایک مخصوص انداز میں پیش کیا ہے، جو روزمرہ کی مشکلات کا مقابلہ کر رہے ہیں۔
ہم نے کمانچر سے پوچھا کہ بلوچستان جیسے محروم علاقے میں رہتے ہوئے اُنہیں فوٹوگرافی میں اپنی پہچان بنانے میں کون کون سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا؟ اُن کا جواب تھا: “میری فوٹوگرافی کی کہانی 2008 میں شروع ہوئی، جب میں نے اپنے مقامی علاقے مند میں اپنے فن کا آغاز کیا۔ یہاں کا ماحول مشکل ہے اور فنکار کو اپنی محنت اور جدوجہد سے اپنی جگہ بنانی پڑتی ہے۔ مجھے فوٹوگرافی کے لئے ضروری وسائل مہیا نہیں کی گئی تھیں اور مجھے اب بھی وہ تمام سہولتیں نہیں ملی جن کی مجھے ضرورت ہے۔ ایک فوٹوگرافر کے لئے معقول مواقع اور مالی سہولتیں ضروری ہیں تاکہ وہ اپنی مصور داستاں کو بہتر طریقے سے بیان کر سکے۔ میں نے کئی دفعہ سوچا کہ میں ایک اچھے ادارے سے کلاسیں لوں تاکہ میں فوٹوگرافی سے زیادہ واقف ہو سکوں اور اپنا کام آگے بڑھا سکوں، مگر یہ میری پہنچ سے باہر ہے کیونکہ میرے پاس کوئی دوسرا سپانسر نہیں ہے۔ میرے والد 2003 میں انتقال کر گئے، اور میں اب ایک طالب علم ہوں، میرا کام فوٹوگرافی ہے، اور اس سوسائٹی میں فوٹوگرافی کسی کا سہارا نہیں بن سکتا۔”
بلوچستان کے فوٹوگرافر کمانچر اپنی فنکاری کے ذریعے بلوچستان کے مکینوں کی مشکلات اور کٹھنائیوں کو اُجاگر کرتا ہے۔ اُس کی تصاویر میں مفلسی، بدحالی اور بنیادی ضروریات کی کمی کی صاف تصویریں نظر آتی ہیں۔ مگر ان مشکلات کی باوجود، فریمز میں امید اور فخر کی جھلکیاں بھی نظر آتی ہیں۔ کمانچر نے بلوچستان کی عوام کی زندگی کی سادہ اور مخلص تصویریں پیش کی ہیں۔
اس نے نہ صرف بلوچستان کی خانہ بدوش لوگوں کے پھٹے ہوئے جھونپڑیوں کو اپنی لنس میں قید کیا، جو ایک سادہ اور مقدس زندگی جی رہے ہیں، بلکہ کمانچر نے بلوچستان کے غریب بچوں کی تعلیم کی خواہش اور مقامی لوک موسیقاروں کو سوروز (ایک بلوچی روایتی موسیقی کا آلہ) بجاتے ہوئے تصویر میں قید کیا، انہیں اپنے موسیقی آلات بناتے بھی دکھایا ہے، جبکہ علاقہ میں موسیقی کی تعلیمی ادارے موجود نہیں۔ اس نے عوام کی موسیقی سے محبت اور ان کی آلات بنانے کی صنعت کو بھی اجاگر کیا۔
کمانچر نے ٹی بی پی کو بتایاکہ اُس نے کبھی فوٹوگرافی کی رسمی تعلیم نہیں حاصل کی، بلکہ وہ اپنی غلطیوں سے اور عملی تجربات سے سیکھتا رہا ہے۔ “فوٹوگرافی ایک عظیم فن ہے، اور میری خواہش ہے کہ میں اپنی قوم کی داستاں اس زبان میں سناؤں۔ میری یہ سفر ابھی جاری ہے اور میں اس فن میں اب بھی ایک طالب علم ہوں” اُس نے بیان کیا۔
جب بلوچستان پوسٹ نے اُس سے پوچھا کہ اُس کی تخلیقی الہام کا ذریعہ کیا ہے، تو اُس نے جواب دیا: “ہر فوٹوگرافر اپنے سفر پر ہوتا ہے، اور ہر ایک اپنے طریقے سے دنیا کو دیکھتا اور تصویر میں اُتارتا ہے۔ میں بلوچستان کو اپنے خصوصی نظریے سے دیکھتا ہوں اور اُس کی مختلف پہلوؤں کو اپنی تصاویر میں قید کرتا ہوں۔
فوٹوگرافی سوسائٹی میں کس قدر اہم ہے؟” ٹی بی پی نے فنکار سے پوچھا۔
اُس نے جواب میں بتایا، “فوٹوگرافی سوسائٹی کے ہر پہلو کو ظاہر کرتی ہے۔ یہ واقعات کو قید کرتی ہے اور مستقبل کے لئے محفوظ رکھتی ہے۔ جو کچھ بھی سوسائٹی میں ہو رہا ہے، تصویر میں اُسے ذخیرہ کیا جا سکتا ہے۔”
بلوچ سوسائٹی میں فنکاروں کی اہمیت کے متعلق اُس نے بتایا کہ ان کو وہ خصوصی قدر و مقام نہیں دیا جاتا جو انہیں حاصل ہونا چاہیے۔ اُس کا ماننا ہے، “فنکاروں کو جب تک اصلی قدر نہ دی جائے، فن سوسائٹی کو بہتر بنانے میں نہیں مددگار ہوسکتا۔”
ٹی بی پی نے کمانچر سے مزید جاننے کی کوشش کی کہ وہ اپنے کام میں بلوچستان کو کیوں زیادہ توجہ دیتا ہے۔ اُس نے جواب دیا، “میں خود بلوچ ہوں، اور چاہتا ہوں کہ میری تصاویر میں بلوچستان کی مخصوص خوشبو ہو، اور یہ خوشبو دنیا بھر میں مشہور ہو۔”
نئی نسل کو متحرک کرنا
کمانچر کی فوٹوگرافی کا اثر بلوچستان کے نوجوانوں پر بھی پڑا ہے۔ اُس کے منفرد طرز عمل نے دیگر نوجوان فوٹوگرافرز کو بھی حوصلہ دیا ہے کہ وہ اپنی کہانیاں بیان کریں۔ اُس نے اپنی تصاویر کو سوشل میڈیا پر بھی بنا کسی روک ٹوک شیئر کیا ہے، تاکہ دوسرے اُسے ڈاؤن لوڈ کرکے استعمال کرسکیں۔ اس فیصلے نے نوعمر فوٹوگرافرز کی ایک کمیونٹی کو بڑھاوا دیا ہے، جو اپنے لینس سے بلوچستان کی چھپی ہوئی خوبصورتی اور مشکلات کو ظاہر کرنا چاہتے ہیں۔
صحت کی جدوجہداور فوٹوگرافی کی فروخت
کمانچر کا فنی سفر کوئی معمولی نہیں ہے؛ اس میں اُن کی ذاتی مشکلات اور صحت کی جدوجہد بھی شامل ہے، معدہ کی بیماریاں، نظر کی کمزوری، ذیابیطس اور جسمانی کمزوریوں نے ان کے سفر میں رکاوٹ ڈال دی، مگر انہوں نے ہار نہیں مانی۔
اس مشکل دور میں، کمانچر نے اپنی تصاویر کی نمائش اور فروخت کا فیصلہ کیا، تاکہ وہ اپنی علاج کے لئے ضروری مالی مدد حاصل کر سکیں۔ شروع میں تو انہیں ہچکچاہٹ محسوس ہوئی، مگر وہ یقینی بن گئے کہ اس سے نہ صرف ان کی مالی مشکلات آسان ہوں گی، بلکہ یہ بلوچستان کی ثقافت اور فن کی قدر بھی بڑھائیں گے۔
کمانچر کا یہ نیا قدم دو طرفہ رد عمل پیدا کر رہا ہے۔ کچھ لوگ اس کا حمایت کر رہے ہیں، کچھ لوگ تو اس قدم کی مدد سے ان کی فن کی اصلیت میں کمی دیکھ رہے ہیں، لیکن، کمانچر اپنی مضبوط موقف میں ثابت قدم ہیں، مانتے ہیں کہ ان کی فوٹوگرافی سے نہ صرف ان کی زندگی بدل سکتی ہے، بلکہ یہ بلوچستان کی فنی برادری میں بھی ایک نئی روایت قائم کر سکتی ہے۔
حال ہی میں آپ نے اپنی صحت کی مشکلات کا ذکر کیا اور اسی وجہ سے اپنی تصویریں فروخت کرنے کا فیصلہ کیا تاکہ علاج کا انتظام کر سکیں۔ کیا اس مشکل وقت میں آپ کو کوئی خصوصی مدد یا پیشکش ملی؟
کمانچر: جی، میری صحت پچھلے کچھ مہینوں کافی نازک رہی ہے۔ اس عرصہ میں میری حالت دن بہ دن خراب ہوتی گئی، اور میں موت اور زندگی کی جنگ میں مصروف رہا۔ اس مشکل وقت میں میرے دوستوں کی فکر اور مدد سے مجھے کچھ تسکین ملی، لیکن افسوس کہ بلوچستان کی حکومت یا کوئی دوسری اہم شخصیت سے کوئی مدد یا پیشکش نہیں ملی۔ ایسی صورت میں میرے پاس صرف ایک ہی راستہ بچا تھا، اور وہ تھا کہ میں اپنی تصویریں فروخت کر کے ضروری مالی مدد حاصل کروں۔
بلوچستان میں فوٹوگرافی کی اہمیت اور فنکاروں کا مقام
کمانچر بلوچ کی صحت میں کمزوری کی بنا پر اُنہوں نے اپنی تصویریں فروخت کرنے کا فیصلہ کیا، تاکہ اُن کے علاج کی مالی مدد کی جا سکے۔ یہ فیصلہ نہ صرف ان کی مالی مدد کا ذریعہ ہے بلکہ ایک اہم پیغام بھی ہے جو فوٹوگرافی اور فنکاروں کی اہمیت نمایاں کرتا ہے۔ بلوچستان میں فوٹوگرافرز کی ایک مظبوط پلیٹ فارم کی ضرورت ہے، جو ان کی فنکاری کو قدر دے اور ذرائع فراہم کرے تاکہ وہ مزید ترقی کر سکیں۔
ٹی بی پی: کیا بلوچستان حکومت یا مقامی ادارے آپ کے فن کی حمایت اور حوصلہ افزائی کر رہے ہیں؟
کمانچر: افسوس نہیں، میں پچھلے پندرہ سال سے اس شعبے میں کام کر رہا ہوں اور میں نے بلوچستان کے مختلف علاقوں میں سات ہزار سے زیادہ تصاویر کھینچی ہیں۔ لیکن اب تک بلوچستان حکومت کی جانب سے کوئی حمایت یا حوصلہ افزائی نہیں ملی ہمیں اپنا کام آگے بڑھانے کی اجازت بھی نہیں دی گئی، فنکاروں کی فروغ کے لئے کوئی خاص اسکیم یا سہولت موجود نہیں ہے۔ بلوچستان کی حکومت فنکاروں کی صورتحال سے بے خبر ہے۔
جب ہم کمانچر بلوچ کی کریئیٹو دنیا میں گہرائی سے جاتے ہیں، ہم دیکھتے ہیں کہ فوٹوگرافی کی ایک خصوصی طاقت ہے جو سچائی کو عیاں کر سکتی ہے اور تبدیلی کا پیغام پہنچا سکتی ہے۔ اس کی لینس سے بلوچستان کی ثقافتی وراثت، حسین مناظر اور لوگوں کی کی ناقابل شکست جذبات کی جھلکیاں ملتی ہیں۔ کمانچر کا سفر بلوچستان کی خوبصورتی اور جدوجہد کی ایک زندہ مثال ہے، اور ہم سب کی ذمہ داری ہے کہ ہم اس فنکاری کی فلاح اور نمو کو یقینی بنائیں۔