ایک غلط اصطلاح جس کا حاصل کچھ نہیں – عمران بلوچ

300

ایک غلط اصطلاح جس کا حاصل کچھ نہیں

تحریر: عمران بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

کیریئر کوسلنگ، نوجوانوں کی بڑھتی ہوئی تعلیمی سرگرمیوں سے دوری، ایک بات میں ہمیشہ سوچ سمجھ کر کہتا ہوں جسے یہاں بھی دہرانا چاہوں گا کہ ہر بلوچ سیاسی ورکر کا پہلا پیار بی ایس او ہی رہا ہے۔ بی ایس او کے لیے اور اس سے وابسطہ طالبعلموں کے لیے اس اعتبار سے نہایت احترام موجود ہے، پر آج کا بلوچستان ماضی قریب اور ماضی بعید دونوں سے سیاسی طور پر یکسر مختلف ہے۔

سماج کے اندر خاص کر نیم قبائلی نیم مذہبی اور نیم خواندہ معاشرے میں یہ بات نہ صرف موجود ہے بلکہ زبان زد عام ہےکہ جی میرا باپ میرا دادا میرے بڑے بزرگ واہ واہ! یعنی وہ تمام خوبیوں کے مالک اور ہر فن مولا تھے اور ان کا ثانی کوئی نہیں، دراصل عمل سے ہاری لوگ ماضی پرست ہوتے ہیں اور پھر میرا باپ میرا دادا میرا خاندان کا رٹا لگاتے لگاتے ایک دن قصہ پارینہ بن جاتے ہیں۔

سیاست، سیاسی عمل اور نظریہ میں معروضی حالات اور قومی مقصدیت کو مدنظر رکھ کرنہ صرف پروگرام تشکیل دیئے جاتے ہیں بلکہ قومی ضروریات کے تحت سیاسی طرز اپنا کر اس کے حصول کے لیے جدوجہد کیا جاتا ہے۔

یہ بالکل ایسا ہی ہے کہ پارلیمانی پارٹیوں اور ان کے طلبہ ونگز کی جانب سے صوبائی خودمختاری اور حق خود ارادیت، پارلیمانی ووٹ کو پتھر پر لکیر سجھ کر اس پر اڑ جانے کا ضد لیکر بیٹھ جانا۔ سیاسی حکمت عملی ، قومی ضروریات اور وژن سے انکار کرنا، آج کے بلوچستان میں یہی کچھ تو ہورہا ہے۔

فرانسز فوکو یاما تاریخ کے خاتمے والی کتاب سے دستبردار ہوکر اسے نہ صرف واپس لیتا ہے بلکہ اسے بڑی غلطی مانتا ہے، ایسا کرکے وہ کوئی شرمندگی یا ہار محسوس نہیں کرتا جو کسی بھی پڑھے لکھے بڑے انسان کی نشانی ہوتی ہے، مگر یہاں فکر ء بزنجو جس کا خوردبین سے ڈھونڈنے سے بھی پتا نہیں چلتا کہ فکر بزنجو ہے کیا؟

کراچی لیگ والے بزنجو کو مانے، کمیونسٹ پارٹی والے بزنجو کو تسلیم کریں، قلات اسٹیٹ نیشنل پارٹی والے کو سرائے ، مسلم لیگ والےکو درست کہے، نیپ والےکو اپنائے، استمان گل والے کو یا پی این پی والے کو سیاسی بصیرت کے حامل تصور کریں؟

اب فکر کو پکڑے نظریہ رہ جاتا ہے نظریے کو پکڑے فکر پیچھے رہ جاتا ہے، ماسوائے انحراف کے اور کچھ بچھتا نہیں۔

صوبائی خودمختاری ہو یا حق خود ارادیت دونوں کا بلوچ قومی جدوجہد اور تاریخی پس منظر سے دور دور کا واسطہ نہیں اور نہ ہی ان پارلیمانی پارٹیوں نے یہ کبھی قوم پر واضح کیا ہے کہ ان کے سیاسی پروگرامز ہیں کیا؟ جو پروگرامز ہیں ان کی سیاسی وضاحت کیا ہوگی اور ان کا حصول کیسے ممکن ہوگا ؟ خاص کر الحاق کے بعد کی سیاست کا حصول کیا ہے؟ پارٹی ہو یا لیڈر سب کا کردار و عمل کیا رہے ہیں؟

بس بچے کی طرح ضد کئے بیٹھے یےکہ میرا باپ، میرا دادا کمال کے تھے لہذا میں بھی اپنے انہیں اکابرین کا طرز سیاست اپناوں گا اور گھسے پھٹے بیانات دہراؤں گا آخر آسمانی وحی تو نہیں ہے؟بلوچ سیاست کے نام پر ، بلوچیت و گل زمین پر آجکل یہ سب کچھ زور و شور سے جاری ہے، اب یہ نادانی تو نہیں ہوسکتا ۔

میں سمجھتا ہوں یہ سب یقینی طور پر دیدہ دانستہ کیا جارہا ہے، ایسا کرنے کا مقصد قومی سفر کو طویل اور پیچیدہ کرنا، بلوچ معاشرے میں کنفیوژن پھیلانا ، یقیناً اس کا فائدہ کالونائزر کو ملے گا، اس کا یہ طرز و طریقہ اس مقصد کے تحت ہورہا ہے کہ بلوچ کو مصروف رکھنا اور تھکا دینا یا وقفہ کرانا اور کالونائزر یہ سب اپنے پیرول پر لئے گئے رد انقلابی قوتوں کے زریعہ سر انجام دے رہا ہے۔

فلحال ایک مرتبہ پھر قبائلی جھگڑے ، مذہبی فرقہ واریت، گینگ وارز جیسے پرانے آزماۓ ہوئے کالونیل ٹوٹکے دوبارہ سے دہرانا شروع ہوئے ہیں، ایسا لگتا ہے نہ قابض کے طریقہ کار میں فرق أیا ہے نہ مقبوضہ کے طرز جدوجہد میں۔

اس سے پہلے سابقہ وابستگان طلبہ سیاست کے موقف کے کہ بلوچ طلبہ تعلیم سے دور اور سیاست سے بیگانہ ہوچکے ہیں۔ ان کی سیاسی ، علمی اور سماجی تربیت کرنی ہوگی، ان کے اس موقف پر میں نے اپنے سابقہ تحریر میں شدید احتجاج کیا تھا کہ سراسر ایک غلط بیانیہ اور بلوچ طلبہ کے ساتھ ناانصافی ہے ، میں سمجھتا ہوں ناانصانی اس لیۓ ہیکہ ان کے ایسے بیانیہ کا پیمانہ کیا ہے؟ خاص کر ایسے بیانات کو جاری کرنا اور موضوہات کو چننے کا مقصد ماسواۓ بلوچ طلبہ کے کنفیوژ کرنے کے اور کیا ہوسکتے ہیں ؟ماضی کے واقعات کے تناظر میں میں نے دلیلوں کے ساتھ اپنا موقف پیش کیا تھا کہ ایسا بیانیہ ایک طرح سے بلوچ قوم کی بھاری اکثریت یعنی بلوچ طلبہ کے تاریخی جدوجہد سے نا صرف انکار بلکہ ان پر کسی بھی بڑے الزام سے کم نہیں ہے۔

اب ایک بار پھر سے بی ایس او پجار چوبیس ستمبر کو شال میں ایک روزہ لٹریری فیسٹول بنام قاضی مبارک اور بیاد ان کے ایک ممبر ذولفقار بلوچ مرحوم کے انعقاد کیا جارہا ہے۔

دو دن پہلے بی ایس او پجار کے چند ساتھی ملنے ائے اور پروگرام میں شرکت کی دعوت دی جسے میں نے چند گزارشات کے ساتھ معزرت کرتے ہوئے قبول نہ کرسکا۔

آج سوشل میڈیا کے ذریعے اسی پروگرام کی بابت ایک پوسٹر نظر سے گزری جس میں مذکورہ فیسٹیول کے مختلف سیشنوں، ترتیب و موضوعات نظر سے گزرے۔

چونکہ ان دوستوں کے ساتھ بھی ان موضوعات پر نہ صرف بحث ہوا بلکہ اختلافی صورت میں میں نے اپنا موقف رکھا جن میں سے اس بحث کے چند پہلو میں یہاں زکر میں لانا ضروری سمجھتا ہوں۔” کیریئر کونسلنگ ، نوجوانوں کی بڑھتی ہوئی تعلیمی سرگرمیوں سے دوری”۔
یہ موضوع اپنے آپ میں سیرحاصل بحث کا طلب گار ہے اور اس کے دو الگ حصے ہیں ، کیریئر کونسلنگ اور بلوچ طلبہ کی تعلیم سے دوری۔

ان دو موضوعات کا تعلق بلوچ سماج سے نہیں اور میری نظر میں ان ہر دو موضوعات کو غلط طور پر بلوچ نوجوانوں کو گمراہ اور مایوس کرنے، تھکا دینے کے لئے منتخب کیا جارہا ہے، ایسے سارے موضوہات اور اسی سال بلوچستان واہسز کے بلوچستان یونیورسٹی کے منعقد کردہ پروگرام، موضوہات اور مقررین جن میں ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ اور انوار الحق کاکڑ شامل تھے میں کوئ فرق نظر نہیں أرہا ، بلوچستان واہسز اور اس کے چلانے والوں کا بلوچ تاریخی سوال، قومی جدوجہد اور مسنگ پرسنز بارے جو موقف ہے وہ ڈھکی چھپی نہیں ہے ۔
ترقی یافتہ اور ادارہ جات پر مبنی أزاد و خود مختار معاشروں کا کام ہے کیریئر کونسلنگ کرانا نہ کہ غلام اور پسماندہ معاشروں کا۔

ایسے تندروست معاشرے جہاں انسانی وسائل بنائے جائے ، وسائل کو فوقیت دی جائے، قدرتی صلاحیتوں کی نشاندہی کرکے ان صلاحیتوں کو معاشرے میں قابل عمل بنانے کے مواقع فراہم کئے جاہیں ، اب اگر کسی میں گلوکاری اور اداکاری کی خداداد صلاحتیں موجود ہوں أپ نے اس کی کیریئر کونسلنگ اس بابت کردی تو اس کو کیریئر بنانے کے کتنے مواقع میسر ہیں، انڈسٹری کہاں سے لائینگے اور اگر براہوئی اور بلوچی میں گانا چاہے تو اس کا کیا حشر کیا جائے گا وہ بھی بلوچ قوم بخوبی جانتی ہے۔ کتنے گلوکاروں اور فنکاروں و شاعروں اور ادیبوں کو اٹھا کر جبری گمشدگیوں کا نشان بنایا گیا، کتنوں کے منہ میں تیزاب ڈالا گیا ، ان میں سے کتنے گلوکاری، اداکاری اور شاعری کے قدغن کا سامنا کرچکے ہیں۔

اتنے انجینیرز اور ایم بی اے والے بےروزگار گھوم رہے ہیں بھلا ہو این جی اوز کا کہ ڈاکٹروں کو بے روزگاری سے بچایا ہے، ورنہ کنتے مکینیکل انجینئرز سول کے پوسٹوں پر تعینات ہیں۔

تو یہاں آیا نظام کو خاص کر تعلیمی نظام کو بدلنے کی ضرورت ہے میکالے ازم جس کا اہم عنصر ہے یا کیریئر کونسلنگ کے نام پر نوجوانوں کو بہکا کر جھوٹی تسلیاں دینا؟

اب تو وکلاء کا ایک بے روزگار کیپ ہزاروں کی تعداد میں الگ سے پیدا ہوچکا ہے فارمہ سسٹ بھی ہر ہفتے پریس کلبز کے سامنے نوکری کے لیے بھوک ہڑتال کرکے بیٹھے رہتے ہیں، کتنے مواقع اور کتنے انڈسٹریز ہیں یہاں ؟ ہاں بس ایک ہی انڈسٹری نظر آتی ہے سیاستدان کا بیٹا سیاستدان، بیوروکریٹ کا بیٹا بیوروکریٹ، ضرورت بس یہ ہے کہ سی وی ٹھیک ہو، ایسے کونسلنگ کرنے والے بیوروکریٹ اور سیاست دان زمباد والوں کو ملنے والے کارڈز کا اور ملنے والے راھ داری کے متعلق کیا کہے گے؟
دوسری بات جو نجانے دیدہ دانستہ یا پھر نا سمجھی اور سیاسی سوجھ بوجھ نہ رکھنے کی وجہ سے کہی جاری ہے یا پھر کہلوائی جارہی ہے کہ نوجوانوں کی بڑھتی ہوئی تعلیمی سرگرمیوں سے دوری۔

یہ الگ بات ہے کہ بلوچستان کے تمام تعلیمی ادارے آج تعلیمی ادارے کم سیکورٹی اداروں کے منظر زیادہ پیش کررہے ہیں، اس کے باوجود بلوچستان یونیورسٹی سریاب روڈ میں ستر سے اسی فیصد داخلہ بلوچ طلبہ کے ہیں، اسی طرح ڈگری کالج بوائز اور گرلز، پولی ٹیکنیکل کالج بوائز اور گرلز میں نوے فیصد داخلہ بلوچوں کے ہیں، بی ایم سی میں پچاس فیصد سے اوپر بلوچوں کے داخلے ہیں، انجینیئرنگ یونیورسٹی خضدار میں ستر فیصد داخلہ بلوچ طلبہ کا ہے ، سکندر یونیورسٹی، ایس بی کے برانچ، لاء کالج، اوتھل یونیورسٹی ، پنجگور، تربت، گوادر سبی , نصیر اباد، وڈھ کیمپسز ، تربت لاءکالج اور میڈیکل کالج، ڈگری کالجزاس کے علاوہ ہیں، ان سب میں کس قومیت کے طلبہ پڑھ رہے ہیں۔ کراچی، پنجاب ، اسلام أباد اور پشاور اس سے الگ ہیں۔

تو پھر کیسے اور کہاں سے اخز کیا جارہا ہے کہ بلوچ طلبہ پڑھتے نہیں ہیں اور تعلیم سے دور ہیں ؟ یہ کس کا بیانیہ ہے اور کیونکر ہے؟ ڈیٹا کہاں سے لایا گیا ہے؟

خاص کر جو بلوچ طلبہ مسنگ ہیں، جن کی لاشیں پھینکی گئیں ہیں ، فصیح اور سہیل کی طرح جن کو اٹھایا گیا ہے، قمبر چاکر اور الیاس نظر جیسوں کا دلخراش واقع، حیات بلوچ جیسوں کے بارے کیا کہا جائے گا؟ یونیورسٹیز کے بند ہونے طلبہ کے ہراس کرنے کو کیا کہا جائے گا جو اسلام اباد ہای کورٹ تک تسلیم کرچکا ہے۔
یہ سب کون کررہا اورکون کروارہا ہے؟ ایسا کیوں کیا جارہا ہے؟ اس پر سوال کون اٹھائے گا اور کب اس بارے بھی فیسٹیول ہوگا؟ اس پر بھی کونسلنگ ہوگی کہ نہیں؟ اس کی نشاندہی کون کروائے گا؟ یا پھر ون ویلنگ، منشیات اور کیرئیر کونسلنگ پر پروگرامز ہونگے بس۔۔۔

کیا بی ایس او پجار میں شامل ورکرز طلبہ نہیں ہیں اور ان کا کسی بھی تعلیمی ادارے میں داخلہ نہیں ہے؟ کیا ان کے ساتھ سب کچھ ٹعیک ہورہا ہے؟ کیا وہ تابش کو بھول چکے ہیں؟ یہ پروگرام تو اس کے بارے میں ہونا چاہیے تھا آخر وہ بھی تو طالبعلم ہی تھا۔

تو پھر کیا یہ اپنے وجود سے طالبعلم ہونے سے انکاری ہیں جو طلبہ بارے اس طرح کے خیالات رکھتے ہیں؟

برسی منانا ،پروگرامز کا انعقاد کرانا، مقررین چننا، موضوع کا انتخاب کرنا، اس سب کا ادراک بہت ضروری ہے۔ جو کہ نظریہ ,ہم خیالی اور ہم آہنگی کی بنیاد پر ہو نہ کے خانہ پری اور پریس ریلیز کے لئے۔

کم از کم آج کا بلوچستان اس کا متمول نہیں ہوسکتا ہے ۔
تسلیم کرنا پڑیگا کہ قاضی مبارک ایک بلوچ آزادی پسند انسان تھے جو ان کے خیالات و اشعار سے واضع ہے، سوال یہ ہیکہ ان کے نام پر پروگرام کرنے سے پہلے یہ سوچا گیا ہیکہ کیا آپ ان کے خیالات اور تخلیق سے من و عن اتفاق کرتے ہوئے انھیں مانتے ہیں؟ اور اگر نہیں تو ایسا کیوں؟ یہ سب کس کے لئے ہے؟ کیا نواب نوروز اور ڈاکٹر حئ ہم خیال ہوسکتے ہیں، نواب بگٹی اور غونث بخش بزنجو، بالاچ خان اور میر حاصل خان بزنجو ہم خیال ہم پروگرام ہوسکتے ہیں؟ ہر گز ہرگز نہیں ہوسکتے ہیں۔ تو کیسے ایک پلیٹ فارم سےان سب کے نام پر پروگرامز منعقد کرائے جائیں؟ ذولفقار بلوچ جیسے نوجوان کا دل کے دورے سے مرنے کا مجھے افسوس ہے جو کہ ایک پارلیمانی پارٹی کے طلبہ ونگ کے رکن تھے مبارک قاضی ایک آزادی پسند تو ان دو کو کیسے اکھٹا کیا جارہا ہے اور میزبان کون ہے؟ کیا یہ سب ایسے سوالات نہیں کے آج کے بلوچستان میں ان کا جواب ڈھونڈ کر زیر بحث لایا جائے یا پھر سب کچھ جیسے چل رہا ہے اسی طرح چلنے دیا جائے؟

تو پھر ہمیں اب قوم پرستی اور قومی سیاست و قومی جدوجہد کے معنی پر غور کرنا اور اسے بدلنا ہوگا کیونکہ موجودہ بلوچستان میں قوم پرستی کی أڑھ میں، طلبہ سیاست کے نام پر ،حق و حقوق کے نام پر بہت سے مہمان ہمسائے اقوام، لیڈرز، پارٹیاں ، سردار و نواب، بیوروکریٹ و کاروباری حضرات سب شہدا کے خون کے ، اجتماعی لاشوں اور اجتماعی قبروں کے منافع خور ہیں ، اب صرف پارٹی، تنظیم، اور آئین بنانا کافی نہیں بلکہ اس سے آگے بھی بات کرنی ہوگی۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔