سعودی عرب اور اسرائیل کے درمیان تعلقات قائم ہونے میں کیا رکاوٹ ہے؟

347

سعودی عرب اور اسرائیل نے حالیہ دنوں میں ایک دوسرے کے ساتھ تعلقات کے قیام کے لیےگرم جوشی کا اظہار کیا ہے جس کے بعد یہ قیاس آرائیاں کی جارہی ہیں کہ بہت سی رکاوٹوں کے باوجود دونوں ملک کسی تاریخی اتفاقی رائے کے قریب ہورہے ہیں۔

سعودی عرب کے ولی عہد اور عملاً حکمران تصور ہونے والے شہزادہ محمد بن سلمان نے گزشتہ ہفتے امریکی ٹیلی وژن ’فوکس نیوز‘ کو ایک انٹرویو میں عندیہ دیا تھا کہ ‘ہر گرزتے دن کے ساتھ’ ہم مشرقِ وسطیٰ میں ایک تاریخی پیش رفت کے قریب ہو رہے ہیں۔

بعد ازاں اسرائیل کے وزیرِ اعظم بن یامین نیتن یاہو نے بھی اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب میں سعودی عرب کے ساتھ امن معاہدے کے قریب ہونے کا بیان دیا تھا۔

یہاں ان عوامل کا جائزہ لیا گیا ہے جو آئندہ دنوں میں سعودی عرب اور اسرائیل کے تعلقات کی بحالی سے متعلق حالات کی سمت متعین کرسکتے ہیں۔

کس کو کیا فائدہ ہوگا؟

گزشتہ ہفتے نیویارک میں امریکہ کے صدر جو بائیڈن سے ملاقات کے دوران اسرائیلی وزیرِ اعظم نیتن یاہو کا کہنا تھا کہ عربوں اور اسرائیل کے درمیان تنازعات کے حل کے لیے سعودی عرب سے تعلقات کی بحالی اہمیت کی حامل ہے۔

ایسے کسی معاہدے کی صورت میں اسرائیل کی داخلی سیاست میں بھی نیتن یاہو کی پوزیش مستحکم ہوگی۔ اس وقت انہیں بد عنوانی کے الزامات اور عدالتی اصلاحات کے خلاف احتجاج کا سامنا ہے۔ ان حالات میں کوئی بڑی سفارتی کامیابی نیتن یاہو کے لیے سیاسی کامیابی بھی ثابت ہو سکتی ہے۔

سعودی عرب نے امریکہ کی ثالثی سے اسرائیل اور بعض عرب ممالک کے درمیان ہونے والے ‘ابراہام معاہدوں’ سے خود کو دور رکھا ہے۔ اس معاہدے کے تحت متحدہ عرب امارات، بحرین اور مراکش اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم کرچکے ہیں۔ فلسطینی اس معاہدوں کو سختی سے مسترد کرتےہیں۔

گزشتہ برس سعودی حکام نے اسی معاہدے کے تحت اسرائیل سے تعلقات کی بحالی کے لیے واشنگٹن کے سامنے کچھ شرائط رکھی تھیں۔ ان شرائط میں امریکہ سے دفاعی تعاون اور یورنیم افزودگی کی صلاحیت کے ساتھ سویلین نیوکلیئر پروگرام کے لئے معاونت کی ضمانت حاصل کرنا شامل تھا۔

صدر بائیڈن سعودی عرب اور اسرائیل کے درمیان تعلقات قائم کرنے کی بڑی سفارتی کامیابی کو مشرقِ وسطیٰ میں استحکام لانے اور ایران کے خطرے کو محدود کرنے کے لیے اہم سمجھتے ہیں۔

واشنگٹن کے انسٹی ٹیوٹ آف نیئر ایسٹ پالیسی سے وابستہ امریکہ کے سابق اعلیٰ سفارت کار ڈینسرروس کا کہنا ہے کہ ایران اور سعودی عرب کے درمیان چین کی ثالثی سے ہونے والے معاہدے کے بعد امریکہ اسرائیل سے تعلقات میں پیش رفت کے ذریعےماضی کی طرح ریاض پر اپنا اثر و رسوخ بحال کرنا چاہتا ہے۔

ڈینس روس کے مطابق اس سفارتی پیش رفت کے لیے سعودی عرب کی شرائط بہت بڑی ہیں تاہم یہ بات واضح ہے کہ بائیڈن حکومت بنیادی تصور سے متفق ہے اور اب نتائج لانے کے لیے کوشش کررہی ہے۔

کیا امریکہ کو کامیابی ملے گی؟

تاحال یہ واضح نہیں کہ واشنگٹن اور ریاض کے درمیان کسی ممکنہ دفاعی معاہدے کی نوعیت کیا ہوگی۔

تھنک ٹینک فاؤنڈیشن فور ڈیفینس آف ڈیموکریسیز کا کہنا ہے کہ امریکہ سعودی عرب کو ’بڑے دفاعی شراکت دار‘ یا ’ بڑے نان نیٹو اتحادی‘ کی حیثیت دینے پر غور کررہا ہے۔ اس صورت میں امریکہ سعودی عرب کو اس نوعیت کا دفاعی تعاون فراہم کرنے کا پابند نہیں ہوگا جیسا اسے اپنے نیٹو اتحادیوں کو فراہم کرنا پڑتا ہے۔

امریکی اخبار ‘نیویارک ٹائمز’ نے گزشتہ ہفتے رپورٹ کیا تھا کہ امریکی حکام سعودی عرب کے ساتھ جاپان اور جنوبی کوریا جیسے معاہدوں پر بھی غور کررہے ہیں۔ البتہ ریاض سے کسی ایسے دفاعی معاہدے کی امریکی کانگریس میں شدید مخالفت ہوگی۔ اسی طرح جوہری تعاون پر بھی امریکی قانون ساز کڑی جرح کریں گے۔

سعودی عرب پُرامن مقاصد کے لیے جوہر صلاحیت کے حصول کی بات کرتا آیا ہے لیکن فوکس نیوز کو اپنے حالیہ انٹرویو میں ولی عہد محمد بن سلمان نے سعودی عرب کے روایتی مؤقف سے ہٹ کر کہا تھا کہ اگر ایران جوہری ہتھیار بناتا ہے تو ہمیں بھی یہ صلاحیت حاصل کرنا ہوگی۔

انسانی حقوق سے متعلق سعودی عرب کے ریکارڈ کو دیکھتے ہوئے بہ آسانی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ریاض اور واشنگٹن کو قریب لانے کے لیے ہونے والی کوئی بھی ڈیل بائیڈن حکومت کے لیے آسان ہدف نہیں ہوگا۔

واشنگٹن میں حقوق کے لیے کام کرنے والی غیر سرکاری تنظیم ’فریڈم انیشی ایٹوو‘ کے سعودی ڈائریکٹر عبداللہ العودہ کا کہنا ہے کہ امریکی قانون سازوں کو کسی ایسے معاہدے کی اجازت نہیں دینی چاہیے جو ان کے فوجیوں کو کسی آمریت کے تحفظ کے لیے خون بہانے کا پابند بناتا ہو۔

فلسطینی کیا کہتے ہیں؟

سعودی عرب کا دیرینہ مؤقف رہا ہے کہ وہ دو ریاستی حل کے سوا اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان تناع کا کوئی دوسرا حل تسلیم نہیں کرے گا۔ اس کے علاوہ سعودی عرب فلسطینی پناہ گزینوں کی منصفانہ آبادکاری کا بھی حامی ہے۔

ابتدائی طور پر یہی مطالبات تعلقات معمول پر لانے کے لیے ہونے والی گفت و شنید کا محور رہے ہیں تاہم حال ہی میں اس گفتگو کا رخ تبدیل ہونا شروع ہوا ہے۔

رواں برس اگست میں سعودی عرب نے پہلی بار فلسطینی علاقوں کے لیے اپنے نان ریزیڈنٹ سفیر کا اعلان کیا ہے جس کے بعد وفود کا تبادلہ بھی ہوا۔

منگل کو فلسطینی علاقوں کے لیے سعودی عرب کے نان ریزیڈنٹ سفیر نائف السدیری نے مغربی کنارے کا دورہ بھی کیا جو گزشتہ تین دہائیوں میں اپنی نوعیت کا پہلا دورہ ہے۔

اس سے قبل فوکس نیوز سے بات کرتے ہوئے شہزادہ محمد بن سلمان نے کہا تھا کہ فلسطینی مسئلہ ریاض کے لیے انتہائی اہم ہے اور ہمیں فلسطینیوں کی زندگی آسان بنانا چاہیے۔

لیکن موجودہ حالات میں یہ واضح نہیں ہے کہ نیتن یاہو اپنی قدامت پسند اتحادی حکومت کے ساتھ فلسطینیوں کو کتنا ریلیف دے سکتے ہیں ۔

سابق امریکی سفارت کار ڈینس روس کا کہنا ہے کہ یہ صدر بائیڈن کی صلاحیتوں کا امتحان ہوگا جس کے نتائج کے بارے میں قبل از وقت کچھ کہنا ممکن نہیں۔

علاقائی اثرات کیا ہوں گے؟

مسلمانوں کے دو مقدس ترین شہر سعودی عرب میں واقع ہے۔ اسی لیے ریاض اگر اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم کرتا ہے تو اس سے ان عرب ممالک کو بھی اپنے فیصلے کا جواز میسر آئے گا جنہوں نے اس سے قبل ابراہام معاہدوں پر دستخط کیے تھے۔

اسی طرح مسلم دنیا کے کئی دیگر ممالک جو اسرائیل کے ساتھ تعلقات کے خواہش مند ہیں ان کے لیے بھی اس سلسلے میں قدم بڑھانا آسان ہوگا۔

دوسری جانب اس اقدام سے مشرقِ وسطیٰ میں پائی جانے والی اسرائیل کی شدید مخالفت کی وجہ سے سعودی بادشاہت کو شدید مخالفت کا سامنا بھی کرنا پڑے گا۔