11 اگست 1947 کو ریاست قلات کی خود مختاری کا اعلان ایک تاریخی حقیقت ہے۔ این ڈی پی

254

نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی کے مرکزی ترجمان نے 11 اگست کے حوالے سے بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ “تاریخ” دیکھنے اور سمجھنے والوں کے لئے ایک آئینہ، سبق اور کچھ اپنے دامن میں سمیٹ لینے کے لئے علم کا بہتا ہوا سمندر ہے جسے فنا کر دینے والے اقوام کا نام و نشان مٹ جاتا ہے۔ زندہ قوم اپنی تاریخ کو آئینے کی صورت دے کر اپنے مستقبل کو روشن اور کامیاب بنانے کے لئے صحیح راہ عمل کا تعین کرتے ہیں۔ بلوچ سر زمین آج دنیا کے نقشے پر تین ممالک ایران، پاکستان اور افغانستان میں تقسیم ہے۔ تاریخی طور پر مختلف ادوار میں بلوچ قومی حدودات وقتی حالات و واقعات کے سبب بڑھتی یا سکڑتی رہی ہے اور اس اعتبار سے ریاست قلات کو پچھلے پانچ صدیوں سے ایک مرکزی قومی وحدت کی حیثیت حاصل رہا ہے اور بلوچ کے مرکزی قوت کو بکھیرنے کے لئے انگریزی نوآبادکار کا سازشی جھال ہر دور میں قلات ریاست کو توجہ مرکوز بنتا رہا ہے۔ بلوچ سر زمین کو تقسیم کرنے کے پیچھے سابقہ انگریزی نوآبادیاتی سرکار کی واضح استعماری پالیسی تھی تا کہ انکے نوآبادیاتی عزائم کی تکمیل ہو پائے۔ جس طرح میر محراب خان احمد زئی بلوچ کا دور ءِ حکومت بد ترین عدم استحکام کا شکار تھا جہاں انگریزی حکومت کا قلات ریاست کے جڑوں کو کمزور کرانے کے لئے باغی سرداروں کو مدد فراہم کرنا اور انکے ذریعے انتظامی امور میں انتشار والا قانونیت پیدا کر کے فتنہ و فسادا برپا کرنا تھا۔ لیکن ان تمام مشکلات کے باوجود خان محراب خان احمد زئی بلوچ نے سابقہ انگریزی سرکار کے سامنے گھٹنے ٹھیکنے سے انکار کر کے مزاحمتی رویہ اختیار کرتے ہوئے جام شہادت نوش کیا اور تاریخ میں امر ہو گئے۔

ترجمان نے کہا کہ مختلف ادوار میں سابقہ انگریزی نوآبادیاتی سرکار بلوچ مزاحمت کو کچلنے کے لئے بھر پور طاقت کا استعمال کرنے کے باوجود اپنے استعماری عزائم کو کامیاب نہ کراسکا جبکہ دوسری جنگ عظیم کے تباہ کاریوں کے باعث انگریز حکومت ایک ایک کر کے اپنے ما تحت نوآبادیات ریاستوں سے نکلتے جا رہے تھے اور بالآخر سابقہ انگریز نوآبادیاتی سرکار کو باور کرایا گیا کہ 1876 کے معاہدے کے زیر ءِ روشنی قلات ریاست کی بحالی اور بلوچ قوم کی آزادی اور خودمختاری کو عملی جامعہ پہنایا جاسکے۔

ترجمان نے مزید کہا کہ جوں ہی لارڈماؤنٹ بینٹن گورنر جنرل و وائسرائے ہند نے 03 جون 1947 کو ہندوستان کی تقسیم کا اعلان کر دیا تو فوراً بعد خان احمد یار خان احمد زئی بلوچ نے قلات ریاست کی آزادانہ حیثیت اور مستجار علاقوں کی واپسی کے مطالبے کے لئے بھی انگریز نوآبادیاتی حکومت سے رابطہ قائم کر کے 04 اگست 1947 کو”محمد علی جناح”، “لیاقت علی خان” اور وائس رائے ہند کے قانونی مشیر ” لارڑ ازمے” کی موجودگی میں کانفرنس منعقد ہوا جس کے نتائج 11 اگست 1947 کو وائس رائے ہاؤس نئی دہلی سے اعلان کر کے قلات ریاست کو حکومت برطانیہ سے ہوئے ماضی کے معاہدات کے روح سے آزاد و خودمختار تسلیم کیا گیا۔ اس متفقہ اعلان کے بعد خان احمد یار خان احمد زئی بلوچ کی سربراہی میں ریاست قلات کی مکمل آزادی کا اعلان ہوا اور 12 اگست 1947 کو بروز جمعہ جامع مسجد قلات میں خان احمد یار خان کے نام سے اسلامی خطبہ بھی پڑھایا گیا اور مسجد کے صحن میں ہی بعد نماز جمعہ آزاد قلات ریاست کا جھنڈا لہرا دیا گیا تھا۔

ترجمان نے بیان کے آخر میں کہا کہ بد قسمتی سے ان تاریخی حقائق کا تذکرہ پاکستان کے قراداد مقاصد سمیت 1956، 1962، 1973 کے آئین میں نہیں ملتا مزید یہ کہ مطالعہ پاکستان میں ان ماضی کے حقائق کو مسخ کر کے ایک نئی شکل دی گئی جو کہ نوآبایاتی رویہ کا تصور پیش کرتا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اس تاریخی حقیقت کو مسخ کیا گیا ہے جسے آج تک مسخ کیا جا رہا ہے۔ 11 اگست 1947 کو ریاست قلات کی خودمختاری کا اعلان ایک تاریخی حقیقت ہے جسے قطعاً جھٹلایا نہیں جاسکتا۔