ہفتہ گمشدگیوں کے نام سے ٹوئٹر مہم کا آغاز

312

بلوچ ، پشتون ،سندھی، شیعہ ،گلگتی ،مہاجر، کشمیری اور پنجابی لاپتہ افراد کی بازیابی کے لئے اور جبری گمشدگیوں کے مسائل کو اجاگر کرنے کے لئے انسانی حقوق کے کارکناں اور اداروں کی جانب سے ایک ہفتہ سوشل میڈیا کمپین کا انعقاد کیا گیا ہے۔

اس کمپین کا انعقاد آٹھ اگست کو کیا گیا ہے جو چودہ اگست تک جاری رہے گا، آٹھ اگست بلوچ مسنگ پرسنز کو بازیاب کرو کے ہیش ٹیگ کے ساتھ سوشل میڈیا مہم چلایا گیا، جبکہ نو اگست کو پشتون مسنگ پرسنز کو بازیاب کرو اور دس کو اگست سندھی مسنگ پرسنز کو بازیاب کرو کا مہم کا چلا جارہا ہے۔

جبکہ گیارہ اگست شیعہ مسنگ پرسنز بارہ کو مہاجر مسنگ پرسنز تیرہ کو گلگتی مسنگ پرسنز اور کشمیری مسنگ پرسنز جبکہ چودہ اگست کو پنجابی مسنگ پرسنز کو بازیاب کرو کا مہم چلایا جائے گا، جبکہ اٹھارہ اگست کو پشتون تحفظ موومنٹ کی جانب سے اسلام آباد میں ایک ریلی نکلا جائے گائے۔

اس سوشل میڈیا مہم کے دوران انسانی حقوق کے رہنماؤں اور سمیت مختلف مکتبہ فکر کے لوگ بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہے ہیں مہم کے حوالے پشتون تحفظ موومنٹ کے رہنما عالم زیب محسود نے دی بلوچستان پوسٹ کو بتایا کہ پاکستان میں جبری گمشدگیوں کا مسئلہ سنگین ہوتا جا رہا ہے جو انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایک انسان کو قانونی کارروائی کے حق کے بغیر بدترین حالات میں رکھنا، جس میں زیادہ تر لاپتہ افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں، اور سب سے بڑھ کر اس میں شامل ریاستی اداروں نے اسے اپنے لیے ایک سہولت بنا لیا ہے۔ جبری گمشدگیوں کے بارے میں خاموشی بھی ایک جرم ہے۔ اس کے لئے سوشل میڈیا پر گمشدگیوں کا ایک ہفتہ مختلف ہیش ٹیگز کے ساتھ چلایا جا رہا ہے، ہر کوئی اس میں اپنی شرکت کو یقینی بنائے۔

انسانی حقوق کے رہنماء عائشہ مسعود جنجوعہ نے دی بلوچستان پوسٹ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اس مہم میں ڈی ایچ آر پاکستان میں جبری گمشدگیوں کے تمام متاثرین کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کرتا ہے، انہوں نے کہا کہ جبری گمشدگی کے عمل نے خاندانوں کے لئے تکلیف اور غیر یقینی صورتحال پیدا کردی ہے ، کیونکہ وہ اپنے پیاروں کو تلاش کرنے اور انصاف حاصل کرنے کے لئے جدوجہد کر رہے ہیں۔ اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے برسوں سے ان کی انتھک کوششوں کے باوجود، جبری گمشدگیوں کے خاتمے اور ذمہ داروں کے احتساب کو یقینی بنانے کے لیے شفاف تحقیقات، قانونی اصلاحات اور سیاسی دباؤ کی اشد ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں جبری گمشدگیوں کے ہولناک نتائج یہ ہیں کہ خاندان ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں، برادریاں خوف میں گری ہوئی ہیں اور خاموشی کا کلچر قائم ہے۔

انسانی حقوق کے کارکن و وکیل ایمان زینب مزاری نے دی بلوچستان پوسٹ کو بتایا کہ مختلف نسلی گروہوں اور تحریکوں کی یہ اجتماعی کاوش اس بات کی ایک شاندار مثال ہے کہ ہم کس طرح ایک دوسرے کے ساتھ مضبوط ہیں۔ اس سے اس تحریک کو ضروری رفتار ملنی چاہیے ، تمام لاپتہ افراد کی رہائی کے لئے اپنی پوری طاقت کے ساتھ سڑکوں پر نکل سکے۔

ایم کیو ایم کے رہنماء حسن بٹ نے دی بلوچستان پوسٹ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ایم کیو ایم اپنے بانی و قائد الطاف حسین کی قیادت میں ظلم و جبر کے خلاف ڈٹ کر کھڑی ہے۔ ہم جنس، ذات پات، عقیدے، ثقافت اور سیاسی وابستگی کی تفریق کے بغیر سب کے لئے ہیں آواز بلند کررہے ۔ گمشدگیوں کے ایک ہفتے کے لئے اجتماعی کوشش وقت کی ضرورت ہے اور اس سے انصاف کے متلاشی تمام مظلوم اقوام کے درمیان ایک مضبوط ورکنگ ریلیشن شپ قائم ہوگی۔

بلوچ وائس فار جسٹس کے رہنماء لطیف بلوچ نے دی بلوچستان پوسٹ سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ اس اقدام کا مقصد نسلی، مذہبی اور سیاسی تقسیم سے بالاتر ہوکر اور جبری گمشدگیوں کے غیر انسانی طریقوں سے نمٹنا ہے۔ انسانیت کی بقاء کے لئے سب کو ایک مشترکہ پلیٹ فارم پر اکٹھا کرنا اور بکھری ہوئی آوازوں کو ایک طاقتور پلیٹ فارم میں تبدیل کرنا ہماری خواہش کا حصہ تھا،

کسی حد تک ہم اس میں کامیاب بھی ہوئے ہیں، اور جبری گمشدگیوں کے خلاف مہم اب تک انتہائی کامیاب ہے۔ انہوں نے کہا کہ ‘گمشدگی کا ہفتہ’ مہم جاری ہے۔ میں ایمان مزاری کا ذکر کرنا نہیں بھولوں گا، ان کی کاوشیں بہت اہم ہیں۔ امید ہے کہ مستقبل میں تمام اقوام اجتماعی طور پر جبری گمشدگیوں کے سماجی المیے کے خلاف آواز بلند کریں گی۔

خیال رہے کہ پاکستان میں جبری گمشدگیوں کا معاملہ ایک گھمبیر صورتحال اختیار کر چکا ہے، انسانی حقوق کی پامالیاں لوگوں کو اٹھا کر جبری لاپتہ کرنے سے ایک انسانی المیہ جنم لے چکا ہے، ہزاروں سیاسی کارکن،طلباء علم، ادیب و دانشور، صحافی ہر مکتب فکر کے لوگ جبری لاپتہ کئے گئے ہیں۔

انسانی حقوق کے ادارے پاکستانی فورسز اور خفیہ ایجنسیوں پہ الزام عائد کرتے ہیں تمام مکتبہ فکر کے افراد جبری گمشدگیوں سے مثاتر ہوئے ہیں حتی کہ جو بھی شخص ان لاقانونیت، انسانی حقوق کی پامالیوں اور اسٹبیلشمنٹ کی غیر آئینی اقدامات پر سوال اٹھاتا ہے اس کو جبری گمشدگی کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔

جبری گمشدگیوں کے حوالے بلوچ وطن و قوم دوست حلقوں کا دعویٰ ہے کہ جبری گمشدگیوں کی ایک طویل پس منظر ہے یہ سلسلہ بلوچستان میں 70 کی دہائی میں شروع کیا گیا جب نیپ کی حکومت کو ذوالفقار علی بھٹو نے ختم کرکےبلوچستان میں ملٹری آپریشن کا آغاز کیا سیاسی قیادت و کارکنوں کو جیلوں میں بند کیا گیا اور اس دوران 1976 میں سردار عطاء اللہ مینگل کے بیٹے اسد اللہ مینگل اور احمد شاہ کو لاپتہ کیا گیا اس زمانے میں بھی جھالاوان، ساراوان ، مری علاقوں سمیت بلوچستان بھر سے سینکڑوں لوگوں کو لاپتہ کیا گیا اور گذشتہ دو دہائیوں میں اس میں بہت زیادہ شدت لایا گیا ہے اور اس دوران ہزاروں سیاسی کارکنوں اور عام شہریوں کو جبری لاپتہ کیا گیا ہے اور یہ سلسلہ آج بھی شدت سے جاری ہے۔

قوم دوست حلقوں کا الزام ہے کہ بلوچستان میں بلوچ قومی تحریک کو کاؤنٹر کرنے کے لئے جبری گمشدگیوں، مسخ شدہ لاشوں اور اجتماعی قبروں کے عمل کو شروع کیا گیا ہے۔

دوسری جانب پشتون الزام عائد کرتے ہیں کہ خیبرپختونخواہ میں طالبان اور دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر عام پشتون شہریوں کو جبری گمشدگیوں کا نشانہ بنایا جارہا ہے اور ہزاروں پشتون جبری لاپتہ کیے گئے ہیں اور سندھ میں سندھی قوم پرست کارکنوں کو اس غیر انسانی عمل کا نشانہ بنایا جارہا ہے اور یہ سلسلہ پنجاب اور کشمیر، گلگت میں بھی جاری ہے اور اظہار رائے کی آزادی مکمل قدغن لگائی گئی ہے۔

پنجاب سے 2005 میں مسعود جنجوعہ اور فیصل فراز کو جبری لاپتہ کیا گیا ، مسعود جنجوعہ ایک بزنس مین تھے اور ٹور ازم کی شبعے سے منسلک تھے اس کی اہلیہ آمنہ مسعود جنجوعہ نے ڈیفنس آف ہیومن رائٹس کی نام سے ایک تنظیم بنائی آج وہ اور اس کی بیٹی جبری گمشدگیوں کے خلاف جدوجہد کررہی ہے۔

جبری گمشدگیوں کے خلاف 8 اگست 2023 سے 14 اگست تک ہفتہ گمشدگیوں کے نام سے ٹوئٹر پر ایک کمپین ایم کیو ایم، ڈیفنس آف ہیومن رائٹس، بلوچ وائس فار جسٹس اور پشتون تحفظ موومنٹ مل کر چلا رہے ہیں، کمپین کا مقصد پاکستان میں ریاستی اداروں کی جانب سے انسانی حقوق کی پامالیوں اور جبری گمشدگیوں کی غیر انسانی عمل کو اجاگر کیا جائے۔