گوادر میں چینی انجنیئروں پر حملے کے شاخسانے
دی بلوچستان پوسٹ فیچر رپورٹ
تحریر: فرید بلوچ
چین پاکستان اقتصادی راہداری(CPEC) کا دل اور خوبصورت بندرگاہی شہر گوادر کو اس وقت جھٹکا لگا جب چینی انجینئرز کو لے جانے ولے قافلے پر ایک مضبوط حملہ کیا گیا۔ 13 اگست 2023 کی صبح سویرے، فقیر کالونی پل کے قریب متعدد دھماکوں اور گولیوں کی آوازیں گونج اٹھیں، جس سے پُر تجسس تماشائی بے چین گواہوں میں بدل گئے۔
حملہ پیش آتا ہے:
گھڑی پر صبح 9:18 بجتے ہی سات گاڑیوں کے قافلے، جن میں سوار زیادہ تر چینی انجینئرز نے خود کو حملے کی زد میں پایا۔ گولیوں اور یکے بعد دیگر دھماکوں نے ایک منظم اور مربوط حملے کی نشاندہی کی۔ چند لمحے بعد، بلوچ لیبریشن آرمی کے ایک ایلیٹ یونٹ مجید بریگیڈ نے حملے کی ذمہ داری قبول کی۔ انہوں نے مختصر اعلامیے میں کہا کہ حملہ تاحال جاری ہے اور مقررہ وقت میں مزید تفصیلات فراہم کرنے کی یقین دہانی کی۔
پاکستان کے انٹر سروسز پبلک ریلیشنز (آئی ایس پی آر) نے بھی فوری ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ عسکریت پسندوں کی سرگرمیوں کی اطلاعات کے بعد آپریشن جاری ہے۔ آئی ایس پی آر نے بعد میں چینی انجینئرز کو لے جانے والے قافلے پر حملے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ عسکریت پسندوں نے چھوٹے ہتھیار اور دستی بم استعمال کیے تھے۔ آئی ایس پی آر کے بیان میں کہا گیا کہ ’’موثر اور تیز ردعمل کے باعث دو دہشت گردوں کو “جہنم” بھیج دیا گیا، جس میں کسی فوجی یا سول افراد کو کوئی نقصان نہیں پہنچا‘‘۔
تاہم، گوادر کی طبی سہولیات زخمیوں اور ہلاکتوں کی آمد کو ایڈجسٹ کرنے میں مصروف تھی، وہیں دوسری جانب سوشل میڈیا پر آنے والی تصاویر اور وڈیوز نے ایک بھیانک منظر پیش کیا، جو حملے کی حقیقی وحشت کو ظاہر کرتی ہے۔
ذمہ داری کا دعوی، ایک تفصیلی بیان:
دن کے آخر میں، بی ایل اے نے ایک جامع میڈیا بیان جاری کیا، جس میں آپریشن زِر پہازگ (operation zir pahazag) کے تیسرے مرحلے کی تکمیل، اس کے مقاصد اور نتائج کا خاکہ پیش کیا گیا۔ یہ دو گھنٹے طویل آپریشن، بی ایل اے کے مجید بریگیڈ کے ارکان نے سرانجام دیا، اس قافلے کو چیئرمین اسحاق چوک جوڈیشل کمپلیکس کے قریب نشانہ بنایا گیا، جو گوادر ہوائی اڈے کو بندرگاہ سے ملانے والا ایک اہم راستہ ہے۔
بی ایل اے کے مطابق حملے میں چار چینی شہری اور 11 پاکستانی فوجی اہلکار ہلاک جبکہ متعدد افراد زخمی بھی ہوئے۔ بی ایل اے نے اپنے اسٹریٹجک نقطے پر زور دیتے ہوئے کہا کہ کس طرح گاڑیوں کے مرکب پر مشتمل قافلے کو روکا گیا، چینی اہلکاروں سے لے کر مختلف فوجی اور پولیس کی گاڑیوں پر دستی بموں کا استعمال کرتے ہوئے تقریباً تیس منٹ تک اپنا حملہ جاری رکھا۔
بی ایل اے مجید بریگیڈ کے دو “فدائین” نوید بلوچ اور مقبول بلوچ آپریشن کے مرکز تھے۔ بی ایل اے کے بیان کے مطابق، ان دونوں فدائین نے آپریشن کے بعد کافی مدت تک پاکستانی فوج کے خلاف مزاحمت کرتے ہوئے، بالآخر اپنی جانوں کی قربانی دی۔
اہمیت کی حامل بات یہ ہے کہ بی ایل اے کے بیان میں چین کے لیے براہ راست پیغام تھا۔ اس نے بلوچستان کی حیثیت، سی پیک (CPEC) اور سیندک جیسے منصوبوں میں چین کی شمولیت پر جاری کشیدگی کی طرف توجہ مبذول کرائی۔ بی ایل اے نے چین کو بلوچستان سے انخلاء یا خطے میں اپنے اہم مفادات پر شدید حملوں کی تیاری کے لیے 90 دن کا الٹی میٹم جاری کیا۔
ہلاکتیں اور نتیجہ:
گوادر حملہ سخت حفاظتی اقدامات کے نتیجے میں متضاد رپورٹس میں الجھتا رہا۔ بی ایل اے کے مطابق حملے کے نتیجے میں 15 ہلاکتیں ہوئیں، جن میں چار چینی شہری، 11 پاکستانی فوجی اہلکار، اور دو بی ایل اے “فدائین” شامل ہیں۔ اس کے برعکس آئی ایس پی آر کے بیانات میں ابتدائی طور پر ایک موت اور تین زخمیوں کی اطلاع دی گئی تھی۔ بعد میں انہوں نے دو عسکریت پسندوں کی ہلاکت کی اطلاع دی لیکن کسی شہری یا فوجی اہلکار کو نقصان پہنچنے کی تصدیق نہیں کی۔
گوادر حملے کے پیش نظر، پاکستان میں موجود چینی کونسل خانے نے اعلامیہ جاری کرتے ہوئے خاص طور پر بلوچستان اور سندھ میں موجود چینی شہریوں کو محفوظ مقامات پر مقیم رہنے کا مشورہ دیا۔
ترجمان چینی وزارتِ خارجہ وانگ وینبن نے واقعے پر سخت ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے پاکستان پر زور دیا کہ وہ مجرموں کے خلاف فوری کارروائی کرے۔ پاکستان میں موجود چینی سفارت خانہ بھی اِن جذبات کی عکاسی کرتا ہے، جنہوں نے ہنگامی ردعمل دیتے ہوئے پاکستان بھر میں چینی شہریوں اور کاروباری اداروں کو اپنے حفاظتی اقدامات کو بڑھانے کی ترغیب دی۔
دریں اثنا، حملے کے بعد گوادر کی مقامی آبادی کو پاکستانی فوج کی بڑھتی ہوئی سرگرمیوں کی وجہ سے بڑے پیمانے پر رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑا۔ حملے کے بعد گوادر شہر تقریباً 24 گھنٹے تک فوجی لاک ڈاؤن کی زد میں رہا۔ فقیر کالونی، نیا آباد، اور ڈی جی کالونی جیسے علاقوں سے کارروائیوں میں مبینہ طور پر متعدد رہائشیوں کو حراست میں لیا گیا اور انہیں نامعلوم مقامات پر منتقل کیا گیا۔
عینی شاہدین اور مقامی لوگوں نے پاکستانی فوج کی جانب سے بڑے پیمانے پر شروع کی گئی سرچ آپریشن اور فوجی کارروائیوں کو بیان کیا۔ جس کے نتیجے میں شہریوں کو ہراساں کرنے، مبینہ تشدد اور گھروں پر چھاپوں کے متعدد واقعات پیش آئے۔ سخت حفاظتی جانچ اور سڑکوں کی ناکہ بندیوں سے گوادر شہر کی نازک صورتحال واضح ہوئی۔
ایک تاریخی متوازی: چینی مفادات پر ماضی کے حملے
2013 میں چین پاکستان اقتصادی راہداری (CPEC) کے آغاز کے بعد سے، بلوچستان میں چینی سرمایہ کاری علاقائی کشیدگی کا مرکز رہی ہے۔ جہاں اسلام آباد اور بیجنگ کے درمیان (CPEC) کو خوشحالی اور دو طرفہ تعلقات کیلئے سراہا جاتا ہے، وہیں بلوچ قوم پرست رہنما اسے اپنے خطے کی استحصال کیلئے ایک باب کی طرح دیکھتے ہیں۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) اکثر اپنے موقف کے بارے میں آواز اٹھاتی رہی ہے، اور ان معاشی اقدامات کو نظرانداز اور استحصال کے وسیع تر تاریخی بیانیے سے جوڑتی ہے۔
ان برسوں کے دوران، بلوچ قوم پرستوں اور “آزادی کے حامی” گروہوں نے اس اقدام کی شدید مخالفت کی، اسے بلوچستان کے قدرتی وسائل سے فائدہ اٹھانے کے لیے “سامراجی” منصوبے کا نام دیا، اور چین کو خطے سے پیچھے ہٹنے کے لیے متعدد تنبیہات جاری کیں، لیکن شاید ممکنہ اثرات کو کم سمجھتے ہوئے چین نے آگے بڑھنے کا علان کیا۔ یہ غلط اندازہ اس وقت ظاہر ہوا جب بلوچ آزادی پسند تنظیموں، خاص طور پر بی ایل اے کی مجید بریگیڈ نے 2018 کے آس پاس منظم طریقے سے چینی اثاثوں اور اہلکاروں کو نشانہ بنانا شروع کیا۔ درج ذیل قابل ذکر حملوں میں شامل ہیں:
11 اگست 2018: دالبندین میں بی ایل اے کے ایک خودکش بم حملے میں چینی انجینئرز کی بس کو نشانہ بنایا گیا۔ حملہ ریحان اسلم بلوچ نے کیا تھا، جو مجید بریگیڈ کے بانی اور بی ایل اے کے اس وقت کے سربراہ اسلم بلوچ کے بڑے بیٹے تھے۔
23 نومبر 2018: مجید بریگیڈ نے کراچی میں چینی کونسل خانے پر ایک مضبوط حملے کیا، جس نے بلوچ آزادی کی جدوجہد کو عالمی توجہ کی طرف راغب کیا۔
11 مئی 2019: گوادر کا پرل کانٹی نینٹل ہوٹل 24 گھنٹے تک بی ایل اے کے محاصرے میں رہا، جہاں مبینہ طور پر اکثر سی پیک سے جڑے افراد رہائش پذیر تھے، اس حملے کے نتیجے میں متعدد ہلاکتیں ہوئیں۔
19 اگست 2021: تاریخ نے پھر خود کو دہرایا کیونکہ ایک دفعہ پھر گوادر میں چینی انجینئرز کے ایک قافلے کو “فدائی” حملے کا نشانہ بنایا گیا۔
26 اپریل 2022: کراچی یونیورسٹی میں، کنفیوشس انسٹی ٹیوٹ کے چینی ملحقہ افراد پر ہونے والے خودکش حملے نے بی ایل اے کے اندر خواتین کی بڑھتی ہوئی شمولیت سے ترقی پذیر حرکیات کو نمایاں کیا۔
چین کے حفاظتی اقدامات:
بی ایل اے مجید بریگیڈ سی پیک اور اس سے جڑے دیگر منصوبوں اور چینی شہریوں کو تیزی سے نشانہ بنا رہی ہے، چین گوادر میں اپنی تزویراتی کوششوں میں بڑھتے ہوئے سکیورٹی چیلنجوں کا سامنا کر رہا ہے۔ ان حملوں کے نتیجے میں، چین نے مختلف جوابی اقدامات اپنائے ہیں، جن میں قابل ذکر اقدامات درج ذیل ہیں:
بیرونی سیکورٹی کی تجاویز: بیجنگ نے متعدد حفاظتی اقدامات پر غور کیا ہے۔ ایسی ہی ایک تجویز، جس میں نجی چینی سیکیورٹی فرموں کو پاکستان میں اپنے شہریوں کی حفاظت کی نگرانی کرنے کی وکالت کی گئی تھی، جسے مبینہ طور پر اسلام آباد نے مسترد کر دی تھی۔ اس کے ساتھ ساتھ، چین نے سی پیک منصوبوں کی حفاظت پر مامور پاکستانی افواج کو خصوصی تربیت فراہم کرنے کی بھی پیشکش کی ہے۔
قلعہ بندی کے اقدامات: اپنے اثاثوں اور عملے کو ممکنہ خطرات سے بچانے کے لیے، ایسی اطلاعات ہیں کہ چین مختلف مقامات سمیت خاص طور پر گوادر پورٹ کے آس پاس محفوظ کمپاؤنڈز بنا رہا ہے۔
باہمی تعاون کے ساتھ سیکیورٹی انتظامات: بلوچستان میں مشترکہ مفادات کو تسلیم کرتے ہوئے بیجنگ اور اسلام آباد دونوں نے اپنے سیکیورٹی تعاون کو تقویت دی ہے۔ حالیہ دنوں میں متواتر مشترکہ میٹنگوں میں سی پیک کے لیے حفاظتی اقدامات میں اضافے پر زور دیا گیا ہے۔
تاہم، ان اقدامات کے باوجود چینی مفادات پر ہائی پروفائل حملے تاحال جاری ہیں۔ اس طرح کے واقعات چین اور پاکستان کے تعلقات کو کشیدہ کرتے ہیں، بیجنگ نے پاکستان میں موجود چینی شہریوں کی حفاظت میں ناکامی پر عدم اطمینان کا اظہار کیا ہے۔ متواتر حملوں اور ان کی اعلیٰ نوعیت نے نہ صرف حفاظتی اقدامات کے بارے میں شکوک و شبہات کو جنم دیا ہے بلکہ شراکت داری کی طویل مدتی عملداری کی جانچ کو بھی تیز کر دیا ہے۔
ہائی پروفائل حملوں کی بڑھتی ہوئی تعداد CPEC کے مستقبل پر داؤ ڈال رہی ہے۔ اس سے نہ صرف چین پاکستان شراکت داری متاثر ہوتی ہے بلکہ بلوچستان میں کسی بھی ممکنہ غیر ملکی سرمایہ کاری کے مستقبل پر بھی سوالات اٹھتے ہیں۔
بلوچستان میں غیر ملکی سرمایہ کاری کا مستقبل:
قدرتی وسائل کے وسیع ذخائر کے ساتھ بلوچستان عالمی سطح پر مواقع کی کرن کے طور پر کھڑا ہے۔ گوادر بندرگاہ اور ریکوڈک مائن جیسی سائٹس اس کی صلاحیت اور اس سے حاصل ہونے والی شدید عالمی دلچسپی کو واضح کرتی ہیں۔
تاہم، چینی شہریوں پر حالیہ بڑھتے ہوئے ہائی پروفائل حملے صلاحیت اور پچیدگیوں کو مزید واضح کرتا ہے۔ سی پیک 2013 میں اپنے آغاز سے ہی کشیدگی کا مرکز رہا ہے۔ سی پیک کو صرف معاشی نقطے سے نہیں دیکھا جاتا بلکہ اسے بیرونی اثر و رسوخ اور مقامی بلوچوں کے مبینہ استحصال کی علامت کے طور پر بھی دیکھا جاتا ہے۔ ان کا خیال ہے کہ بڑے اسٹیک ہولڈرز، جیسے چین اور پاکستان وسائل کی قیمت پر بلوچ عوام کی استحصال کرتی ہیں۔
بیرک گولڈ کارپوریشن کی جانب سے 2022 کاREKO DIQ معاہدہ بین الاقوامی سرمایہ کاروں کے لیے بلوچستان کی رغبت کا ثبوت ہے۔ لیکن احتیاطی حساب سے بھی دیکھنا چاہیے۔ جیسا کہ چین اپنے مفادات کے تحفظ کے چیلنجوں سے نمٹ رہا ہے، بلوچستان پر نظر رکھنے والی دیگر کارپوریشنوں کو ان سیکورٹی چیلنجوں اور سیاسی منظر نامے پر غور کرنا چاہیے۔
بلوچ رہنماؤں اور سیاسی کارکنوں نے مسلسل اپنا موقف پیش کیا ہے کہ سرمایہ کاری کا خیر مقدم کرتے لیکن بلوچستان کی مطلوبہ آزادی حاصل کرنے کے بعد۔ان کا کہنا ہے کہ بلوچستان کے حقیقی اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ حقیقی بات چیت صرف آزادی کے بعد ہی ہو سکتی ہے۔ اس سے سرمایہ کاری کے تصور کو استحصالی ہتھکنڈوں کے بجائے باہمی ترقی کو فروغ دینے والی حقیقی شراکت داری کے طور پر دیکھا جائے گا۔
مستقبل کی سرمایہ کاری کو پھلنے پھولنے کے لیے، ایک زیادہ جامع نقطہ نظر کی ضرورت ہے- جو نہ صرف معاشی فوائد حاصل کرے بلکہ مقامی بلوچ آبادی کی امنگوں اور خدشات کو بھی دور کرے۔ ممکنہ سرمایہ کاروں کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ خطے کی پیچیدہ حرکیات کو سمجھیں، بلوچ کی خواہشات کی صحیح معنوں میں نمائندگی کرنے والوں کے ساتھ بات چیت میں مشغول ہوں، اور ایسے کاموں کو فروغ دیں جو باہمی ترقی اور دیرپا امن کو یقینی بنائیں۔