کوئٹہ: جبری گمشدگیوں کے خلاف احتجاج جاری

84

کوئٹہ پریس کلب کے سامنے وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کا لاپتہ افراد کی عدم بازیابی اور جبری گمشدگیوں کے خلاف طویل احتجاجی کیمپ آج 5152 ویں روز جاری رہا۔

خاران سے سیاسی سماجی کارکنان سعداللہ بلوچ، خیر محمد بلوچ اور دیگر نے آکر اظہار یکجہتی کی۔

تنظیم کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ نے کہا کہ بلوچستان میں فوجی آپریشنز کئی برسوں سے جاری رہتے ہیں یہ بلوچستان میں چوتھا فوجی آپریشن ہے جو 2002 سے تاحال جاری ہے جس میں ہزاروں بلوچ فرزند پاکستانی خفیہ اداروں کے ہاتھوں جبری اغواء ہوکر ریاستی ٹارچر سیلوں میں مختلف اذیتیں سہہ رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ہزاروں کی تعداد میں بلوچ فرزندوں کو ماورائے آئین شہید کیا گیا ہے۔ جن کی تشدد زدہ لاشیں بلوچستان کے مختلف علاقوں سے برآمد ہو چکے ہیں۔ توتک میں سینکڑوں لاپتہ افراد کی اجتماعی قبروں میں سے کئی لاپتہ بلوچوں کی لاشیں برآمد ہو قابض کی وحشی پن کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ ریاست پاکستان ہر قسم کے ہتھکنڈے بلوچ قوم پر آزما رہی ہے تاکہ بلوچ قوم کو زیر کر کے بلوچ قوم کی نسل کشی اور وسائل کی لوٹ مار جاری رکھ سکے۔

ماما قدیر بلوچ نے کہا کہ عالمی اداروں اور مہذب دنیا سے توقعات ایک طرف لیکن سب سے پہلے بلوچ کو خود یہ جاننا پڑے گا کہ اجتماعی قبروں کی دریافت ہو یا روزانہ کہیں نہ کہیں کسی بلوچ فرزند کی مسخ شدہ لاشوں کا ملنا ہو بلوچوں کی ٹارگٹ کلنگ ہو یا چادر چاردیواری کی روزانہ کی بنیاد پر بے حرمتی ہو ہا ہمارے جگر گوشوں کی فورسز کے ہاتھوں جبری اغوا ہو۔ ان سب کا بنیاد صرف یہ ہے کہ بلوچ مظلوم محکوم قوم ہے یہ سب کچھ قابض حکومت کررہا ہے۔