تربت سول سوسائٹی کے ترجمان نے ایک بیان میں سبی کے رہائشی نور خاتون کی کوئٹہ بچوں سمیت جبری اغواء کو بلوچ کش جابرانہ پالیسیوں کا تسلسل قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ نوجوانوں کی جبری اغوا، مسخ شدہ لاشیں برآمد ہونے کے بعد اب بلوچ خواتین کو بھی جبری گمشدگی کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔
ترجمان نے کہاکہ کوئٹہ سے جبری گمشدہ نور خاتون سے پہلے تربت کے رہائشی بھی ہوشاپ اور کراچی میں اغوا کیے گئے جنہیں اذیت کے بعد رہا کردیا گیا اب اس جبر کا تسلسل سبی تک پھیلایا گیا ہے، گذشتہ روز سبی سے بچوں کو لے کر علاج کی غرض سے کوئٹہ آنے والی نورخاتون کو ہوٹل کے کمرے سے بچوں کے ہمراہ جبری گمشدگی کا شکار بنایا گیا اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ بلوچ ہونا کسی تفریق کے بغیر ایک جرم ہے اس کی سزا جبری گمشدگی ہی ہے۔
انہوں نے کہاکہ نام نہاد پارلیمانی جماعتیں جو گلا پاڑھ کر پارلیمنٹ کو بلوچ مسلے کا حل سمجھتے ہیں ایسے حساس معاملات پر مہر بہ لب ہیں، کسی جماعت نے اس واقعہ کی مذمت تک گوارا نہیں کی ہے جو افسوس کا باعث ہے۔
ترجمان نے کہا کہ تربت سول سوسائٹی نورخاتون اور ان کے کمسن بچوں کی جبری گمشدگی کے خلاف 2 ستمبر ہفتے کو تربت میں احتجاجی مظاہرہ کرے گی تمام بلوچ دوست سیاسی و سماجی کارکنوں سے اس میں شریک ہونے کی اپیل کرتے ہیں۔