نواب نوروز! شہداء بلوچستان اور ایکس کیڈرز (آخری حصہ) ۔ عمران بلوچ

165

نواب نوروز، شہدا ء بلوچستان اور ایکس کیڈرز
( آخری حصہ)

تحریر: عمران بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

پہلے عبدالرؤف کو ایک سازش کے تحت شہید کیا گیا اور اب ان کے بھائی کو اہلیہ سمیت قتل کرکے ان کی لاش پھینکی گئی ہے۔ مقصد بلوچستان کو مذہبی انتہا پسندی اور خانہ جنگی کی طرف دکھیلنے کی کوشش ہے تاکہ بلوچ کو جس حد تک ممکن ہو مصروف رکھا جائے۔

اب آتے ہیں اصل موضوع کی طرف کہ ایکس کیڈرز نے استصالی قوتوں اور قبضہ گیر کے کہنے پر خضدار میں شہدائے بلوچستان کے بجائے منشیات فروشی اور ون ویلنگ پر بات کی کہ یہ دونوں غلط اعمال ہیں ایسا نہیں ہونا چاہیے اور نوجوان نسل کو اس سے دور رہنا چاہیے۔

اچھی بات ہے بشرطیکہ اس پر عمل ہو، پر ایکس کیڈرز نے نہ یہ پوچھا اور نہ ہی یہ بتایا کہ خضدار تک یہ لعنت آیا کیسے اور کہاں سے آیا؟

اس کے بیچنے والے کون ہیں؟ سرکار ان بیچنے والوں کو پکڑتا کیوں نہیں ہے؟ کہیں اس کاروبار سے منسلک لوگ ان ایکس کیڈرز کی وابسطہ پارٹیوں میں تو شامل نہیں ہیں؟ ایسا تو نہیں کہ خود بہت سے ایکس کیڈرز منشیات جیسے لعنت کے کاروبار سے وابسطہ ہیں؟ یا اس کے عادی تو نہیں ہیں؟ کہیں یہ لعنت انھوں نے ہی بی ایس او کے نوجوانوں تک نہیں پہنچا دیا ہے؟

یقیناً پورے بلوچ سماج میں نوجوان نسل تک منشیات پہنچانے والا ، بلوچ سماج کو برباد کرنے والے ان کی وابسطہ سیاسی پارٹیوں کا حصہ رہے ہیں، کیا یہ سوال انھوں نے کسی سے پوچھا؟ اس پر غور کیا؟ ان میں سے بہت سے ایسے لوگوں کے پی ایس رہے جو اس لعنتی کاروبار سے منسلک ہیں جو ترقی پاکر رد انقلابی بن جاتے ہیں جسے عرف عام میں ڈیتھ اسکواڈ کہتے ہیں ، یہ پی ایس صاحبان ان کی ایسی کمائی کا حساب کتاب رکھتے رہے اور بہت سے اپنے ایسے عزیز و اکارب کی مدد کرکے اپنا حصہ لیتے ہیں جو اس کاروبار سے منسلک ہیں، ان میں سے بہت سے خود یا ان کے اکابرین لینڈ گریبنگ سے منسلک ہیں اس کا کیا جواب ہے ان ایکس کیڈرز کے پاس؟

آج پورے بلوچستان میں منشیات کی لعنت دیدہ دانستہ پھیلائی جاری ہے جس کا خاص ٹارگٹ بلوچ نوجوان ہیں بلکہ اب تو بعض علاقوں میں خواتین اس سے محفوظ نہیں ہیں۔

تو اس کے بیچنے والے کون؟ وہاں تک لیجانے والے کون؟ محفوظ راستہ دینے والے کون؟ کہاں سے اور کیسے أتی ہے منشیات ؟

خضدار سمیت مشکے ، آواران جیسے علاقے میں یہ لعنت پہنچا دیا گیا ہے۔ ایکس کیڈرز نے یہ تمام سوالات خضدار پروگرام میں کیوں نہیں اٹھائے ؟ اس کا جواب ڈھونڈنے کی، اس کی نشاندہی کرنے کی کیوں کوشش نہیں کی گی ؟ اس لعنتی کاروبار سے منسلک لوگوں کا نام لیکر انھیں کیوں بے نقاب نہیں کیا گیا؟ وہ سرکار جس کے کہنے پر انھوں نے خضدار پروگرام جسے تعزیتی ریفرنس کہنا شہداء کے خون سے غداری ہوگی ان شہدا کے عمل و کردار جدوجہد کے زکر کو خضدار سمیت پورے بلوچ سماج میں پھیلانے کو یہ ایکس کیڈرز کیوں نظر انداز کر گئے اور سوال نہیں اٹھایا؟

دکھ اور تکلیف کا باعث ان کا یہ عمل ہے کہ جب شہدا کا نام تک لینا گوارہ نہ تھا، تصویر، پوسٹر، اسٹیکر، پمفلٹ، پینافلیکس کچھ بھی نہ لگانا تھا تو پروگرام کا اعلان کیوں کیا گیا؟ اسے شہدا کے نام پر رکھنے اور تعزیتی ریفرینس کا نام کیوں دیا گیا؟ اور پھر سرکار سے کیوں مذاکرات کئے گئے اور سب کچھ تسلیم کرکے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے خضدار سیاسی طور پر ان کے حوالے کیوں کی گی اور نہ رکھنے والا خوف کیوں پھیلایا گیا؟۔

بات کرتے ہیں زانت کی، سیاست کی، شعور کی، نوجوانوں کے تربیت کی، مگر ان کا یہ عمل ایک سیاسی اور تاریخی سیاہ دبہ ہے جو ہمیشہ ان کے کردار پر لگا رہے گا۔

کیا یہ سب ایک سوچا سمجھا منصوبہ تھا کہ خضدار کو مزید ان کے حوالے کرنا خوف و ہراس پھیلانا تھا؟
( ایکس کیڈرز )
کیا ایکس کیڈر کی کوئی معنی، کوئی تعریف، کوئی مطلب بھی ہے؟ کیا اس کا کوئی بیک گراؤنڈ بھی ہے یا پھر کچھ بھی بولناہے، لکھنا ہے اور یہی سمجھنا ہے کہ فرق کیا پڑتا ہے؟

کہیں ایسا تو نہیں کہ” اف کن، پر کن، ہچ ۔ کے حساب سے معاملات چلائے جارہے ہیں۔اب تک تو ” تو منا حاجی بوگش، من ترا ملا گوش آں” باقی سب ٹھیک ہیں ، جو کچھ ہوتا ہے ہونےدو، جو کرنا ہے کرنے دو جیسے معاملات لگھ رہے ہیں۔مگر تاریخ ایسا ہرگز نہیں بتاتا، بلکہ ایکس کیڈرز کی ایک وسیع اور نہایت اہم تعریف بتانے کے ساتھ ساتھ حدود و کیود بھی مقرر کئے ہیں۔

ایکس کیڈر عموماً اور زیادہ تر ایسے ادمی کے لئے یا کسی ایسے فرد کے لیے استعمال کیا جاتا ہے جو کسی سیکوریٹی ادارے سے منسلک سابقہ ریٹائرڈ ملازم ہو
ایسا کیڈر ریٹائرمنٹ کے بعد کسی اور ادارے میں شمولیت اختیار نہ کرے ، کسی دوسرے ادارے سے اپنی وابسگتی نہ بناۓ اور نہ ہی کسی قسم کا تعلق بنائے۔

اول، جب کبھی ان کا سابقہ ادارہ بوقت ضرورت ان کو طلب کرے تو یہ ایکس کیڈرز حاضر ہوکر اپنے خدمات پیش کریں۔

دوئم۔ ایسے ایکس کیڈرز اپنے تجربات اس ادارے سے منسلک نئے کیڈرز کے ساتھ وقتاً فوقتاً ادارے کی موجوودہ قیادت یعنی ادارے کی مرضی و منشا کے مطابق شیئر کریں، ایسے تمام افراد ایکس کیڈر کہلاتے ہیں ۔ ان کا صرف اور صرف کام اپنی جنگی تجربات نئے کیڈرز تک پہنچانا ہوتا ہے۔

سوئم۔ ایکس کیڈر یا سابقہ ممبر کی تعریف ہی یہ ہیکہ اس کی سابقہ وابستگی کسی جنگی، سیکورٹی ادارے سے ہو یا پھر کسی مزاحمتی تحریک سے یا اس تحریک کے مسلح ادارے سے ہو اور ریٹائر منٹ کے بعد نئے کیڈرز کی تربیت کرے، ان کیساتھ اپنا تجربہ بانٹے۔

اپنے تجربات بارے لکھے ، مگر حاصل کردہ تجربے کے ساتھ ساتھ اپنا علمی مطالعہ مزید وسیع کرے، کہنے کا مطلب ہے ان کا بعد کا کردار ایک جنگی ماہر اور ایک دانشور کا ہوگا۔

رہی بات سیاست کی تو ہمارے ایکس کیڈرز بی ایس او میں سیاسی ورکر تھے اب اگر انھیں ورکر کے ساتھ ساتھ سابقہ مرکزی چیئرمین اور مرکزی عہدیدار نہیں لکھے گے تو یہ ناراض ہوکر برا مانیں گے، البتہ طلبہ سیاست سے فراغت کے بعد انھوں نے پارٹی سیاست شروع کی ، بات ادھر ہی آکر رکھتی ہے کہ سیاسی ورکر ہی ہوئے اس دوران کسی کو پارٹی عہدہ ملتا بھی ہے تو وہ یقیناً عارضی ہوگا جو ایک کونسل سیشن سے دوسرے کونسل سیشن تک ہی رہے گا ، تب بھی یہ سیاسی ورکر ہی کہلائے گے، تو اس میں ایکس کیڈر کہاں سے آیا؟ یہ الگ بات ہے کہ ہمارے ماہر دو سال کو چھ سال یا چودہ سال تک کھینچ سکتے ہیں۔

بالائی تعریف کو مد نظر رکھے تو یہ ایکس کیڈرز بظاہر تو کسی سیکیورٹی فورس سے تعلق نہیں رکھتے، جہاں تک بات بلوچ قومی جہد کی ہے ، مسلح جدوجہد کی ہے یہ ایکس کیڈرز اس جدوجہد کے وجود سے انکاری ہیں جس کی واضع مثال ان کے حالیہ انٹرویوز، بیانات اور پریس ریلیز ہیں۔ کیونکہ بقول ان کے یہ پرامن لوگ ہیں، پارلیمان اور عدم تشدد کی بات کرتے ہیں۔

ایکس کیڈرز کا گذشتہ ڈھائی تین سالہ بیانیہ تضادات سے بھرپور ہے جس کی وجہ دھوکہ، کم عملی، غیر سیاسی پن کے سوا اور کچھ بھی نہیں ہے۔

لہذا تحریک سے وابستگی تو دور کی بات ہے یہ بس قوم کو نوجوانوں کو گھمراہ نہ کریں، تحریک کے سامنے رکاوٹ بن کر خضدار پروگرام کی طرح دشمن کے ہاں میں ہاں نہ ملاہیں۔

بی ایس او کو مزید یہ بخش دیں، اور قوم پر بھی رحم کھائیں، سیاست تو ان سے ہونے سے رہا بس جو کر رہے ہیں اسی پر گزارا کرکے اپنے اپنے گھر چلاہیں جو ان کا اصل حدف ہے نہ کے سیاسی کلچر کو پراگندہ کریں۔

ختم شد


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔