نواب نوروز! شہداء بلوچستان اور ایکس کیڈرز (پندرہویں حصہ) ۔ عمران بلوچ

218

نواب نوروز، شہدا ء بلوچستان اور ایکس کیڈرز
(پندرہویں حصہ )

تحریر: عمران بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

تاریخ کے دو پہلو یا پھر بہت سارے پہلو ہوسکتے ہیں، پر یہ دیکھنے، سننے ، لکھنے اور تحقیق کرنے والوں پر منحصر ہے کہ اسے تاریخ کے کس پہلو میں دلچسپی ہے؟ موضوع کیا چنتا ہے؟ البتہ تاریخ کے دو پہلو بہت مشہور ہیں، ایک ہے روشن پہلو یا پھر تابناک پہلو۔

بی ایس او بلوچ قومی سیاست میں اپنی شمولیت کی وجہ سے ، طلبہ تحریک کی وجہ سے جدید بلوچ سیاسی تاریخ میں ایک روشن باب کے طور پر یاد رکھا جاۓ گا، اس تنظیم نے اپنا سنہری باب اور عروج دیکھا پر اب معاملات ماضی جیسے نہیں رہے ہیں۔

سماجی اور سیاسی ماہرین کا ماننا یہ ہے کہ وقت اور حالات کے مطابق تبدیل نہ ہونا یا تبدیلی نہ لانا ٹہرے ہوئے پانی کی طرح ہے جو بیماری پھیلانے کا باعث بنتا ہے ، ایک مختصر مدت کے سوا اٹھاسی کے بعد بی ایس او ٹہر سا گیا، اس لئے آج یہ تنظیم بس تاریخ کا ایک باب ہی بن کر رہ گیا ہے، یہ ایک الگ پہلو اور حقائق کو بڑا چڑھا کر پیش کرنے والی بات ہے کہ جب بلوچستان میں نیپ پر پابندی لگی تو بی ایس او نے عروج دیکھا، سوال تو سیاسی پروگرام پر ہونا چاہیے پھر اس کے بعد نتیجے کا ادراک کرنا لازمی ہے، ورنہ آج بی ایس او ماضی کے مزار کی طرح ایک سنہرا باب ہی ہے۔

یقیناً اس سب کے زمہ دار ایکس کیڈرز اور ان کا طرز سیاست و سیاسی رویہ رہا ہے۔

آج بی ایس او ہر تحقیق ہر مکالہ اور ہر کتاب میں موجود ہے اگر موجود نہیں ہے تو بس زمین پر موجود نہیں ہے، موجود نہیں ہے تو حقیقی بنیادوں پر تعلیمی اداروں میں موجود نہیں ہے، موجود نہیں ہے تو سیاسی اور عملی میدان میں موجود نہیں ہے۔

وقت و حالات کے مطابق تبدیلی نہ لانا زمینی حقائق کے مطابق نہ چلنا ماضی کے یادوں پر چلنا اور حالات و واقعات کو بڑا چڑا کر پیش کرنا وہی نتیجہ نکالتا ہے جو آج بی ایس او کا حال ہے، بلوچی حال حوال کی طرح آج اس کے پاس ایک بڑا ماضی موجود ہے کہ جس سے ماضی کے جھروکوں میں جھانک کر ڈاکٹر مبارک علی ایک کتاب لکھے، پر حال میں یہ ادارہ کہیں بھی نظر نہیں آتا، یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسے ڈائنوسار، یعنی ماضی میں بہت بڑا وحشی ظالم دیو قامت جانور تھا پر آج اس کا وجود کہاں اور کس حالت میں ہے اسے بیان کرنا آسان ہے پر ڈھونڈنا مشکل ہی نہیں نا ممکن ہے، شاید اسے اپنے بڑے اور بھاری بھرکم جسم و قامت پر غرور تھا مگر آج اس کا نام و نشان تک موجود نہیں ہے ہاں البتہ کتابوں میں، ڈاکومینٹریز میں اپنا وجود رکھتا ہے۔

ہم سو فیصد پارلیمانی پارٹیوں کو بی ایس او کی ناکامی کا ذمہ دار نہیں ٹھرا سکتے اور نہ ہی پارٹی ونگ ہونے کی وجہ سے بی ایس او قصہ پارینہ بنتا جارہا ہے، یہ چند بڑے وجوہات ہوسکتے ہیں پر کل وجوہات نہیں ہیں۔
مردہ جسم دھوپ میں پڑا سڑھ جاتا ہے اور باقی ماندہ جسم گدوں کا خوراک بن جاتا ہے یعنی جو کچھ بی ایس او کے ساتھ ہوا ہے اسے گدھ مزید نوچ نوچ کر کھانا چاہتے ہیں۔

دراصل تاریخی اور زمینی حقائق یہ بتاتے ہیں کہ بی ایس او کی وجہ شہرت اور بلوچ مخلوق سے، بلوچ قوم سے ملنے والے پیار کی وجہ کسی ایکس کیڈر یا ایکس کیڈر سینٹرل فورم کی وجہ سے نہیں ہے اور نہ ہی کسی کی گسی پٹی تقریر کی وجہ سے ہے، جہاں تک میں سمجھتا ہوں ان ستاون سالوں میں بی ایس او کی وجہ شہرت انقلابی و آشوبی دیوانوں کے ساتھ ساتھ وہ چیئرمین یا عہدیداران اور ممبران ہیں جن کا بلواسطہ یا بلاواسطہ تعلق قومی تحریک سے، قومی مزاحمت سے، قومی جنگ سے، قومی غلامی کے غلام جدوجہد سے رہا ہے۔

بلوچوں کے دل ودماغ میں نقش بن کر امر رہنے کی وجہ صرف بی ایس او کا قومی جہد سے منسلک ہونے کیوجہ سے ہے۔

بی ایس او کے ایک دھڑے کی کونسل سیشن میں الیکشن کمیٹی نے خاص کر چیرمین کمیٹی نے اعلان کیا کہ الیکشن کے پیسوں میں مزید چندے کی رقم ملا کر شہدا ء مرگاپ کی شہادت کی جگہ پر یادگار تعمیر کرایا جائے گا ، الیکشن اور چندے کے پیسے توجمع ہوئے پر یاد گار نہ بن سکا ۔

بی ایس او میں چندہ کرنے کی اور چندہ دینے کی بھی ایک الگ باب داستان ہے ، جب کبھی بی ایس او کی تاریخ لکھی جاہے گی اس باب پر لکھنا ضروری ہوگا۔
ایکس کیڈرز اور ایکس کیڈرز سینٹرل فورم بشمول ایکس کیڈر ثانی ہمراہ پیداگیریت و تالی چٹ سامنے آئے اور اپنے عزائم کا کھل کر اعلان کیا، اب سننے میں آرہا ہے کہ کچھ ملازم جو ابھی کچھ عرصہ پہلے ریٹائرڈ ہوچکے ہیں مزید چند ریٹائرڈ ہونے والے ہیں یہ لوگ عنقریب ایکس کیڈرز بی ایس او سہب کا اعلان کرنا چاہتے ہیں ان کا یہ دعوی بھی ہے کہ اصل کیڈرز یا حقیقی کیڈرز وہ ہیں۔

میں سمجھتا ہوں یہ تینوں گروپس ٹاس کرلیں شرط یہ ہے ٹاس رات کو ہو جو جیتا وہی حقیقی ہے۔

چند ہفتے پہلے جب وڈھ مسئلے کا پہلا فیز جاری تھا اس دوران خضدار پریس کلب کی توسط سے گھنٹے بھر کی ایک پریس کانفرنس نظر سے گزری، جس میں چند سال پہلے بینکاک میں ہونے والے ایک این جی او کے پروگرام کا ذکر کافی بڑا چڑا کر پیش کیا گیا تھا، اس پروگرام میں بی ایس او کے ایک دھڑے کےسابق سربراہ بمعہ کابینہ کے دو اراکین اور بی این پی کے دو بزرگ عہدیداروں نے شرکت کی تھی، بی ایس او کے ایسے اراکین اج ایکس کیڈرز کا حصہ ہیں ۔ حالانکہ وہ پروگرام ایک این جی او کی طرف سے تھا جو خالصتاً قانونی اور سیاسی تھا اور انسانی حقوق کے بابت تھا جسے اس پریس کانفرنس میں نہ صرف بڑا چڑا کر اور الزام تراشی کی چادر میں لپیٹ کر ایک غلط رنگ دیا گیا تھا، بلکہ اس شرکت کو جواز بناکر الزام تراشی کا بازار گرم کیا گیا تھا، سوال یہ ہے اس پروگرام کی بات کرنا، اس کے نام پر غلط بیانی کرنا، اسے غلط رنگ دینا اور ایسی جگہ پہنچانا کہ اس پر پریس کانفرنس کیا جائے اور اسے تحریک کے خلاف ثبوت کے طورپر بیان کیا جائے، آخر یہ باتیں وہاں تک کس نے پہنچائے ہونگے؟ کس نے غلط بیانی سے کام لیا ہوگا اور حاصل و مقصد کیا ہے؟

پڑھنے والوں کو یاد ہوگا مست توکلی کی آخری نشانی کو دو تین سال پہلے جلائے جانے کی خبر میڈیا کے ذریعے چلی، اس واقع کو ایک بھرپور کہانی کیساتھ شرپسند اور سماج دشمن عناصر کی بلوچ قومی ہیروز کے خلاف سازش جان کر تاریخی نقوش کو مٹانے کے مترادف پیش کیا گیا تھا، حقیقت یہ ہے کہ قبر کے آس پاس والے علاقے میں ایک صاحب جو بی ایس او کی کوئی سابقہ چیرمین رہے ہیں وہاں رہتے ہے جو آب حیات اور کیپسول نجات کے کاروبار سے سالوں سے منسلک ہے، ایکس کیڈرز کے ابتدائی پروگرامز کا حصہ رہے ہیں تو مزار کا رات کے سمے جل جانا، نادانی کئیں یا غم بھلانے کی کیفیت بہرحال غلطی ہوئی ہے مگر ہے سماج دشمن عناصر کا کردہ ، بلوچ دشمن شر پسند اور سامراج کی سازش، یعنی ذاتی مسلہ ہے۔

اسی طرح ایک انتہاہی ذہین چیرمین نے چند انعام و کرامات کے بدلے بی ایس او خضدار زون کے ایک عہدیدار کو معطل کردیا تھا اگلے دن معطل شدہ ممبر تحفہ تحائف سمیت چیرمین کے پیچھے پیچھے کوئٹہ پہنچے تحائف نے کام کردیا اور وہ ایک دن کے وقفے سے اپنے بحالی کا اخباری بیان جاری کرواکے گھر پہنچے، آج کالونائزر کا طرز سیاست پارلیمنٹ میں موجود ممبران کا سلیکشن بالکل اسی طرز پر ہوتا ہے مطلب یہ کلچر کالونائزر کا تھا جسے یہ لوگ یہاں لے آئے اور اسے بی ایس او پر، بلوچ نوجوانوں پر مسلط کردیا ، کہتے ہیں یہی صاحب کوئٹہ سے ایک قافلے کی شکل میں غالباً پنجگور جارہے تھے وہاں اٹھائیس مئی کے دھماکوں کے خلاف پروگرام تھا اب نجانے اس بیچ کیا ہوا کہ وہ پروگرام تو نہ پہنچے بلکہ کہیں اور پہنچے اور اپنے تنظیم کے انعقاد کردہ پروگرام میں عین موقع پر شرکت نہیں کی، آج وہی صاحب نہ صرف ایکس کیڈرز کے کرتہ دھرتہ ہیں بلکہ نوجوانوں کے اور قوم کی تقدیر بدلنا چاہتے ہیں۔

جس طرح پنجاب کا بغیر وسائل کے ہونا اور اتنی بڑی آبادی ایک بوجھ ہے بالکل اسی طرح ڈائنوسار آج اگر زندہ ہوتا تو خود پر اپنی وجود پر ایک بوجھ ہوتا بالکل اسی طرح میں سمجھتا ہوں ایکس کیڈرز آنیوالی بلوچ سیاسی تاریخ پر خصوصاً خود پر ایک بد نما داغ ہونگے اور بوجھ ہونگے۔

ایکس کیڈرز میں شامل این پی گروپ اس بات پر پریشان ہے کہ پی پی گروپ بار بار انھیں بی این پی مینگل کے خلاف استعمال کرنے کی اپنے عزائم کا اظہار کر چکے ہیں، باقی رہی بات پندرہ جولائی پروگرام کا وہ میں سابقہ تحریروں میں تفصیلی لاچکا ہوں، کہ جی ہم آپ سے آپ ہم سے ہیں یہ ملک، آئین، پارلیمنٹ، اس کے تمام ادارے ہمارے ہیں لہذا پروگرام میں شامل تمام سامعین کو بھی انھیں اپنا سمجھنا چاہیے۔

اس سب کا فیصلہ میں تاریخ پر ، بلوچ نوجوانوں پر اور مورخ پر چھوڑتا ہوں۔ کسی بھی قوم کے تحریک کا فائدہ یہ ہیکہ وہ بے عمل لوگوں کو ، سودا بازوں کو، کالونائزر کے حواریوں کا اصل چہرہ تحریک میں شامل لوگوں کے سامنے آشکار کردیتاہے، یقیناً بلوچ تحریک نے بھی وہ فیز دیکھنا ہے اور دیکھ رہا ہے۔

رہی بات خضدار پروگرام کی یا خضدار کو فتح کرنے کی تو آج کا خضدار دو ہزار أٹھ کے بعد جن حالات سے گزرا ہے اس کے بعد اپنے حقیقی اولادوں کے سوا کسی پر بھروسہ نہیں کرتا، خضدار جھالاوان کا تخت ہے جو نواب نوروز اور شہدا ء بلوچستان سمیت نورا مینگل و شہید علی محمد مینگل کے جدوجہد کا مرکز و محور رہا ہے ، لہذا آج کا خضدار ماسوائے اپنے حقیقی فرزندوں کے کسی پر کیسے اور کیوکر اعتماد کرے؟

جاری ہے


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔