نواب نوروز، شہداء بلوچستان اور ایکس کیڈرز
( چودھواں حصہ)
تحریر: عمران بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
آج جب میں اس سلسلے وار تحریر کو آگے بڑھا رہا ہوں تو اس دوران بلوچ و بلوچستان نے کیا کچھ ہوتے نہیں دیکھا، صرف چوبیس گھنٹوں میں چودہ معلوم بلوچ نوجوانوں کو بلوچستان اور کراچی سمیت مختلف شہروں سے جبری طور پر گمشدگی کا نشانا بنایا گیا ہے دوسری جانب تربت میں نیشنل الائنس کے نام سے ایک پریس کانفرنس نظر سے گزری اس کے علاوہ ایکس کیڈرز کوئٹہ میں انڈا دیتے دیتے بچ گئے، اس سب سے بڑھ کر پارلیمانی الٹ پلٹ اور مختلف میٹنگز، ناشتے، لنچ و ڈنرز ، پریس ریلیز و پریس کانفرنس میں سمجھنے والوں کے لئے بہت کچھ ملا۔
خضدار پروگرام اور اس کے مزے اپنی جگہ، پچھلے سال ڈاکٹر حئی مرحوم کا برسی ایکس کیڈرز نے منایا اور اس پروگرام کے نام پر سول سیکٹریٹ سے جو کمائی ہوئی وہ زبان زد عام ہے نجانے شال کی سڑکوں نے کیا کچھ دیکھنا ہے۔ اب پھر ایکس کیڈرز ڈاکٹر حئی کی برسی کو منانا چاہتے ہیں پر اب کی بار سیکٹریٹ کے دروازے فلحال تو بند ہیں ہاں البتہ چند بیوروکریٹس کہ جن کی پچھلے برسی پر آشیرباد لی گئی تھی ان میں سے چند موجود ہوں ، اس سب کے بعد آیا اب بھی برسی مناہینگے کہ نہیں اس کا بھی آنیوالی دنوں میں پتہ چل جائے گا۔
دوسری جانب میر حاصل خان مرحوم کی برسی منانےکا شرف حاصل کرنے کا اعلان ہوا ہے، ان کے خاندان اور پارٹی نے غالباً الگ سے پروگرام انعقاد کرنے کا نوید سنایا ہے خیر سب کچھ ایک آدھے ہفتے میں بلکل واضح ہوگا۔
فلحال میوزک پروموشن کے نام پر گزارہ کرتے ہیں اب اس سب کا کیا معنی لیا جائے کہ نمایا ہونا ہے میڈیا پر اسٹیج پر آنا ہے اس کے لیے چاہے کچھ بھی کرنا پڑے یاپھر وقت گزاری کرنی ہے۔۔۔ اور بس۔
رہی بات خضدار میں شہداء کی برسی اور تعزیتی ریفرینس کی کہ انتظامیہ نے کیا کہا اور ان ایکس کیڈرز نے کیا جواب دیا؟ بات واضح ہے جمہوری، پر امن، پارلیمانی ، بلوج نوجوانوں بلکہ قوم کی تربیت کرنے والے سارے اکھٹے ہوں تو نتیجہ کیا نکلے گا، انتظامیہ سے مراد وڈے لوگ، مرتے نہ کیا کرتے، کعبہ قبلہ وہی ادھر ہی سے تو راستہ بنتا ہے، روشنی نظر أتی ہے، الیکشنز کے نزدیک ہوتے ہی کوئی الائنس، کوئی ایکس کیڈر تو کوئی یوتھ بن کر حرکت میں برکت کا سوچے یقینا دال میں کچھ کالا نہیں بلکہ دال ہی سارے کا سارا کالا لائے ہیں، میں نے یہاں یوتھ لکھا ہے کوئی یوتھیا سمجھنے کی غلطی کرکے مجھے مورد الزام نہ ٹھراۓ ، تو وڈے لوگوں کا نمائندہ مقامی بابو یعنی سی ایس ایس و پی سی ایس والے پیغمبر نے پیغامرساں کا کردار نبھایا اور راستہ بنایا، طے یہ ہوا کہ مذاکرات مذاکرات کھیلے گیے، مفاہمت ہوگی، خیالات کا اظہار ہوگا ایکس کیڈرز ہونگے، ایکس کیڈرز ہوں مذاکرات کامیاب نہ ہوں یہ کیسے ممکن تھا؟ آخر مزاق رات کے لئے بھی وقت نکالنا تھا ، اتفاق کیا گیا کہ مذاکرات کے لئے کمیٹی بناکر نام دئیے جائے، تو مشہور زمانہ چرب زبانی کے ماہر کچھ طفل کیڈرز کو ملا کر ٹیبل ٹاک کرنے گئے، یہ نہ بھولئے گا کہ خضدار شہر میں پروگرام ہو، بزنجو خاندان ایکٹو نہ ہو اور کوئی مثبت کردار ادا نہ کرے بھئی اخر اڑھتالیس سے مفاہمت, مذاکرات، دور اندیشی، پرامن یہ سب ان کا ترہ امتیاز ہی تو ہے، اب بھی انھوں نے پل کا کردار نبھایا ، وفد بمعہ ثالث کے وڈے لوگوں کے پاس گئے, مزاکرات سے پہلے ایجنڈا طے ہوا جس کا با مقصد نتیجہ اس طرح نکلا کہ سب سے پہلے مققرین کے نام مانگے گئے، فوراً ہی پانچ نام مہیا کئے گئے، اتفاق اس بات پر کیا گیا کہ واقعی میں شہدا ء بلوچستان دہشتگرد تھے، ریاست مخالف أئین شکن لوگ تھے، غدار تھے، لہذا ان کی کوئی بھی تصویر، پمفلت، پوسٹر، بینر کچھ بھی ہال سمیت پورے شہر میں نظر نہیں آنی چاہیے نہ ہی کوئی ان کے بارے میں تقریر کریگا، ریاستی تناظر میں بات تو ٹھیک ہے البتہ دلچسپ پہلو یہ ہے کہ کون کس جانب تھا اور ہے؟ پھر وڈے لوگوں نے دو موضوعات قبلہ اول سے ٹیلی فون پر منظور کرائے کہ جی منشیات کے خلاف تقریر ہوگی مزید ون ویلنگ کے حوالے سے روشن خیالی کا آدرش دیا جائے گا تاکہ خضدار کے نوجوانوں کی اخلاقی تربیت ہوسکے, لہذا مقررین کے نام بمعہ شناخت دیئے گیے، موضوع پر اتفاق کیا گیا، متفقہ طور پر تمام شرائط من و عن مانے گئے، ثالث نے اس سب کی ذمہ داری لی بلکہ جیت کی خوشی میں ہر طرح سے رات کی تمام ضروریات کا ذمہ بھی لیا، خضدار کے عوام خاص کر اس ہال میں موجود لوگ گواہ ہیں کہ آیا تقاریرشہداء بلوچستان بارے ہوئے یا پھر منشیات ون ویلنگ کے حوالےسے تقریریں کی گئی؟ پریس ریلیز اپنی جگہ موجود ہے اور پھر یہ اتنے شریف لوگ ہیں کہ نہ کوئ ویڈیو ریکارڈ کرایا نہ اسے پبلک ہونے دیا ماسواۓ ایک موصوف کے جس نے وہی پرانی اور لگی لپٹی بات دورائ کہ ہم سیاسی لوگ ہیں، جموری لوگ ہیں، پارلیمانی لوگ ہیں، یعنی ہم تو أپ کے ساتھی ہیں، ہم نے یہ فورم اپ کی نظر میں انے کے لئے ہی تو بنایا ہے آپ ہم سے ہی ناراضی اور بے رخی کا اظہار کررہے ہیں، آخر کیوں؟ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ حب چوکی میں جو ریلی منشیات کے خلاف نکالی گئ تھی وہاں بھی طے شدا معاملہ تھا نہ کہ بلوچ سے انھیں کچھ لینا دینا تھا، اس کا مطلب ہے کہ اج کے بلوچستان میں قطع نظر اس کے کہ سماج کو متحرک رکھنا ہے اور سماج کو اس کی ضروریات کے مطابق سیاسی پروگرامز دینے ہیں، یعنی کہ کہیں نا کہیں جمہوری و پارلیمانی پر امن دانشمندوں کے پروگرامز پھر چاہے منشیات کے خلاف ہوں، ون ویلنگ کے خلاف، تعلیمی و کتابی اسٹالز، کلچر ڈے، کیریئر کونسلنگ یہ سب طے شدہ ہوتے ہیں اس سے یہ بات بھی ثابت ہوتی ہے کہ سرکار ہو سردار ہو یا خرکار ہو جسے ایکس کیڈرز کا نام دو، ایکس سینٹرل فورم نا دو، میوزیکل پروموشن کہو ، چاہے الائنس کے نام پر تقسیم در تقسیم اور میلہ ہو ، یوتھ کا یا کوئی بھی نام ہو، یقیناً پہلے سے موجود بازاری پھتے باز ان کے ونگز ہوں لیفٹ رائیٹ ہوں، ہفتہ اتوار پارٹیاں ہوں ان سب کو سبق ایک جگہ سے ملتا ہے کہ بلوچ نوجوانوں کو تحریک کو فوکس کرنا ہے سماج کو ڈی پولیٹیسائز کرنا ہے، کیوں کہ ان ایکس کیڈرز کو یہ لیکچر بھی سمجھا بجھا کر زہن نشین کرایا گیا کہ خضدار بمشکل ان کے کنٹرول میں ایا ہے کافی جھوکم کے بعد انھوں نے نوجوانوں کو ختم کرکے یا شہر اور نوجوان دونوں کو کنٹرول کرکے ڈی پولیٹیساہز کیا گیا ہے لہذا اب اس شہر میں سیاسی پروگرامز، سیمینارز، سرکلز، جلسے جلوس کرنے نہ چھوڑا گیا ہے اور نہ اب یا أہیندہ چھوڑا جائے گا کہ جس سے یہاں سیاست کو سیاسی شعور کو دوبارہ پنھپنے کا موقع ملےجس پر ان ایکس کیڈرز نے اتغاق کیا، اس سے پتا لگتا ہے کہ بی ایس اوز ہوں یا پارلیمانی پارٹیاں ان سب کی طرف سے خضدار شہر میں سیاسی پروگرام نہ کرنا اور جس نے جس طرح کے پروگرامز کیۓ ہیں وہ سب طے شہدا ہوتے ہیں جن کا مقصد نوجوانوں کو ٹارگٹ کرنا، بلوچ نوجوانوں کو اور بلوچ سماج ان سب کو ڈی پولیٹیساہز کرنا ہے۔ ہر بیان ہر پریس رلیز ہر پریس کانفرنس میں بلوچ نوجوانوں کو، یوتھ، مسنگ پرسنز، مزاکرات یہ سب نہ صرف منظورشدہ ہوتے ہیں بلکہ باقاعدہ ایک حکمت عملی کے بعد بیان کئے جاتے ہیں۔
جاری ہے۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔