نواب نوروز، شہداء بلوچستان اور ایکس کیڈرز
(بارہویں حصہ)
تحریر: عمران بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
اس موضوع پر لکھنے کے دوران یہ کوشش رہا ہے چاہے ماضی ہو یا حال دائرے سے باہر نہ جاؤں، بہرحال حالیہ کچھ دنوں میں جس طرح ایکس کیڈرز کے انٹرویوز آرہے ہیں اور ان انٹرویز میں جس حساب سے وہ بی ایس او کے نظریاتی اساس ، سیاسی پس منظر ، آئینی اور تاریخی سفر سے، بنیادی پروگرام سے انحراف کرکے اسے کاونٹر کررہے ہیں ، بی ایس او کی معروف حیثیت کو جس انداز سے ملیا میٹ کررہے ہیں، ان ایکس کیڈرز کے حوالے سے سابقہ قسطوں میں جو کچھ میں اپنی تحریر میں لاچکا ہوں میری باتوں کو سچ ثابت کرنے کے لئے ان کے یہ انٹرویوز ہی کافی ہیں۔
رہی بات اس سلسلے کو آگے بڑھانے کی تو اس سال پندرہ جولائی کو ایکس کیڈرز نے خضدار میں شہداء بلوچستان کی برسی منانے کا اعلان کردیا، یقیناً یہ آج کے خضدار کے حوالے سے بہت بڑا سیاسی اعلان تھا کہ چند سال پہلے بی ایس او کے ایک دھڑے کو ڈگری کالج خضدار میں سیمینار منعقد کرنے سے زور آور لوگوں نے باقاعدہ روک دیا تھا، اس سال کےشروع میں وہاں کے چند طلبہ نے کتابوں کا اسٹال لگانا چاہا تو انھیں نہیں چھوڑا گیا، برمش اور حیات بلوچ کے واقعات کے بعد جن ایکٹیوسٹوں نے ریلیاں نکالیں تھی انھیں ایک ایک کرکے مسنگ کیا جارہا ہے ان حالات میں ایکس کیڈرز کا خضدار کو سیاسی پروگرام دینا اہمیت کی حامل بات تھی، خیر قول کے بجائے فیل کا دیکھنا لازم ٹہرا اور سچائی کا تعین نتیجے سے ہی اخز کیا جاتاہے لہذا کچھ لکھنے سے پہلے پندرہ جولائی کو ایکس کیڈرز کے نام سے اس پروگرام کے بابت جو پریس رلیز جاری کیا گیا پہلے زرا اس پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔
خضدار بی ایس او ایکس سینٹرل فورم کے زیر اہتمام خضدار پریس کلب میں شہدا ء بلوچستان کی یاد میں ایک تعزیتی ریفرنس زیر صدارت چیئرمین محی الدین بلوچ منعقد ہوا، مہمانان خاص چیئرمین سعید فیض چیرمین نادر قدوس تھے جبکہ اعزازی مہمانوں میں واحد رحیم چیئرمین امین بلوچ چیئر مین اسلم بلوچ چیئرمین عمران بلوچ شامل تھے۔
تعزیتی ریفرنس میں خضدار کے عوام، سیاسی و سماجی کارکنوں، اساتذہ کرام، ٹریڈ یونین انجمن تاجران، پروفیسرز، خواتین، طلبا و وکلاء، صحافی حضرات اور دیگر مکاتب فکر کے لوگوں نے کثیر تعداد میں شرکت کی مقررین نے خطاب کرتے ہوئے شہدائے بلوچستان سمیت دنیا کے تمام شہدا کو خراج عقیدت پیش کی۔
مقررین نے کہا کہ موجودہ صورتحال میں نوجوانوں کی سیاسی عمل و تعلیمی سرگرمیوں سے دوری اور بیگانگی کو باعث تشویش قرار دیا گیا۔ ایکس کیڈر فورم کی موقف ہے کہ ان کیلئے تمام سیاسی جماعتیں یکساں ہیں اور ان سب کو ہم قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ ایکس کیڈر فورم کی پلیٹ فارم سے علمی سیاسی سماجی شعور اجاگر کیا جائے گا اور نوجوانوں کی علمی و سیاسی و نظریاتی فکری تربیت کیلئے جدوجہد کیا جائےگی۔
یہاں ان کے جاری کردہ پریس رلیز کو میں نے من و عن بغیر کسی ایک لفظ کجا ایک نقطہ کے اضافے کے بغیر شامل کیا ہے۔
بی ایس او ایکس کیڈرز کے بجائے پہلی بار اس بیان میں لفظ “سینٹرل” کا اضافہ پڑھنے کو مل رہا ہے تو کیا ایکس کیڈرز الگ ہیں اور ایکس کیڈرز سینٹرل فورم الگ ہے؟ آیا چیئرمین الگ ہیں باقی کابینہ جن میں سینٹرل کیبنٹ، سینٹرل کمیٹی، زونل عہدیداران اور یونٹ سیکٹریز الگ ہیں؟ تو ان سب کی بشمول ممبرز حیثیت کیا ہے، ایکس ہو یا سینٹرل ایکس تو پھر موجودہ دھڑوں کے چیئرمین کمیٹمیوں میں کیونکر شامل کئے گئے ہیں؟ اور آگنائزر و چیرمین، سلیکٹ، الیکٹ ان سب کی پہچان و تعریف بھی کرادیں۔یہ تعزیتی ریفرینس جو شہدا ء بلوچستان کے یاد میں منعقد کی گئی تھی اس بیان کے مطابق تعزیتی پروگرام کے صدارت محی الدین بلوچ نے کی، سیاسی شعور رکھنے والا ہر بلوچ خاص کر بی ایس او سے وابستگی رکھنے والے ساتھی اچھی طرح سے واقف ہے کہ یہ ہمیشہ سے سیاسی روایت چلتی آرہی ہے کہ شہدا کی برسیوں میں صدارت کوئی دوسرا شخص خاص کر زندہ انسان نہیں کرتا بلکہ صدارت شہدا کے تصویر کی ہوتی ہے ہاں البتہ مہمان خاص اور اعزازی مہمان کی روایت رہی ہے، تو پھر یہاں ایسا کیا ہوا کہ اس دہاہیوں پرانے بلکہ انقلابی قوموں کے صدیوں پرانی سیاسی روایت کی خلاف ورزی کی گئی، حقیقتاً یہ بی ایس او کی اپنی قائم کردہ روایت رہی ہے، یہاں میں قلات سے آئے خاص تحفوں کا زکر نہیں کروں گا البتہ شہدا کے حوالے سے نہ کوئی، پمفلٹ، نہ کوئی پوسٹر، نہ اسٹیکر، نہ کوئی بینر اور نہ ہی کوئ پینا فلیکس، ہال کے اندر بھی جن کی برسی منائی جارہی تھی ان کی نہ کوئی فوٹو نہ کوئی نشانی آخر اس کی کیا وجوہات ہونگی؟
خیر یہ الگ بحث ہوگا کہ خضدار میں ٹیچرز اور تاجروں کے کتنے دھڑے ہیں اور ان کا لگام کس کے ہاتھ میں ہے باقی بلوچستان کجا پاکستان میں اول تو ٹریڈ یونینز بچے کہاں ہیں؟ اور اگر خضدار میں اپنا وجود رکھتے ہیں تو حافرین ہی کہیں گے۔
خواتین کا پتا نہیں تصویروں میں ایک خاتون ضرور نظر آرہی تھی،جہاں تک بات تعداد کی ہے تو خضدار پریس کلب کے چھوٹے سے حال میں کتنے لوگ سما سکتے ہیں اسے یہاں بیان کرنے کے ضرورت نہیں، البتہ صحافیوں تک نے پروگرام میں شرکت نہ کی تھی، جہاں تک بات نوجوانی کی ہے میں نے شروع میں ہی کہا تھا ان کا فوکس نوجوان رہے ہیں ، تاریخی سچائی یہ ہے کہ آج مسنگ پرسنز سے لیکر مسخ شدہ لاشوں میں اکثریت بلوچ نوجوانوں ہی کی ہے اور جب نوجوان سیاست سے دور ہیں تو انھوں نے اس پروگرام میں شرکت کیسے کی جس کا زکر بیان میں کیا گیا ہے؟ اور یہ معلومات انھیں کس نے بتائی کہ نوجوان سیاست اور تعلیم سے دور اور بیگانہ ہیں؟ ان کی معلومات غلط ہوسکتی ہیں یا حقیقت میں بلوچ نوجوان ان سے دور اور بیگانہ ہیں ، اس کے لئے پھر ان ایکس کیڈرز کو تشویش میں مبتلا ہونا چاہیے ورنہ میں سمجھتا ہوں یہ بلوچ نوجوانوں کے لئے فکر مند ہونا چھوڑ دیں اور اپنا یہ بیان واپس لے لیے ، پھر کہتے ہیں تمام سیاسی جماعتیں ان کے لیے ایک ہیں وہ تو پروگرام سے واضح تھا جہاں این پی اور جھالاوان عوامی پینل اکھٹے بیٹھے تھے اور ان کو اکھٹا کرنے کا شرف ایکس کیڈرز کو ہی حاصل رہا ورنہ یہ پارٹیاں اور پینلز اپنا الگ وجود ، ائین، پروگرام رکھتے ہیں نظریہ طرز سیاست الگ ہیں پر ان ایکس کیڈرز کے لیے سب ایک ہوئے، اب ان کی سیاسی شعور پر اور اپروچ پر انسان تبصرہ کرے بھی تو کیا کہے کہ یہ کسی تبصرے میں بھی نہیں أتے اس لیے ان کا یہ بیان میں بلوچ عوام پر، دانشوروں پر بلخصوص بلوچ طلبہ پر چھوڑتا ہوں جنھیں یہ غیر سیاسی اور جاہل یعنی تعلیم سے دور اور سیاسی بیگانگی کا شکار کہتے ہیں۔ قطعہ نظر اس کے کہ کونسی تعلیم؟ کونسی سیاست؟ نظریہ کیا ہے اور نظریہ ہے بھی کہ نہیں؟ بس ہمارے لئے سب پارٹیاں ایک ہیں پھر وہ بی این پی کا ٹراہیکا ہو، این پی ہو، جمعیت ہو، پی پی ہو ،ن لیگ ہو، جھالاوان پینل ہو ، ڈیٹھ اسکواڈز ہوں، منشیات فروش ہوں یا کوئی اور، ان کے لیے سب ایک ہیں اسی لیے یہ ایک دروازے سے نکل کر دوسرے ، دوسرے سے نکل کر تیسرے ، تیسرے سے نکل کر چھوتے میں داخل ہوتے ہوتے نظریہ کا کاکٹیل بنا چکے ہیں۔اور بات کرتے ہیں نوجوانوں کو علمی سیاسی سماجی شعور دینے کی، کیا یہ خود ان موضوہات کی تشریح کر سکتے ہیں؟ کس نے کہا اج کا بلوچ نوجوان یہ سب نہیں جانتا؟ أج کا بلوچ نوجوان ان موضوہات کا اور ان اشخاص کا ادراک اچھی طرح کرتے ہیں اب بھڑک بازی ، روسٹر اور ڈائیس کو مکا مارنے کا دور گیا ، یا پہلے جیسے ورکر پڑھا لکھا ہوتا تھا اور لیڈر ان پڑھ ، جس کی مثال ان ایکس کیڈرز میں موجود ہے اب وہ دور بھی کب کا گزر چکا ، اسی لئے اج بی ایس او اتنا ضعیف ہوچکا ہے پر انھیں کیا معلوم؟ دراصل یہ حضرات خود نظریہ، علم فکر و تربیت اور شعور سے دور ہوچکے ہیں اور انھیں یہ غلط فہمی ہے کہ دنیا خاص کر بلوچ قوم بلخصوص بلوچ نوجوان ان کے ڈگر پر چل رہے ہیں یا چلینگے، میں نے شروع میں بھی یعی عرض کیا تھا کہ یہ خود سرد جنگ سے نہیں نکلے اور سمجھتے ہیں باقی جہاں بھی ان کے طرح ادھر ہی رکھی ہوئی ہے۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔