نیشنل پارٹی کے زیراہتمام میر غوث بخش بزنجو اور میر حاصل خان بزنجو کی برسی کے موقع پر نال میں جلسہ عام منعقد ہوا ۔
جلسے سے نیشنل پارٹی کے مرکزی صدر ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ، مرکزی سیکریٹری جنرل جان بلیدی، میر کبیر محمد شہی، رحمت صالح بلوچ، سردار اسلم بزنجو، سینیٹر طاہر بزنجو، بوہیر صالح اور دیگر نے خطاب کیا۔
ڈاکٹر عبالمالگ بلوچ نے اپنے خطاب میں کہا کہ اس وقت ملک بدترین سیاسی و معاشی بحران کا شکار ہے جس کی بنیادی وجہ گزشتہ پانچ سالوں کی سیاسی و انتظامی بد نظمی ہے۔
ڈاکٹر مالک بلوچ نے کہا کہ اس بدترین صورتحال سے نکلنے کا واحد راستہ بروقت اور صاف شفاف غیر جانبدارانہ انتخابات پارلیمنٹ کی بالادستی اور تمام اداروں کے اپنے دائرہ احتیار میں رہ کر کام کرنے میں مضمر ہے۔ وفاق کو چاہیے کہ 1973 کے آئین اور اٹھارہویں ترمیم پر من و عن عمل کرکے صوبوں کو زیادہ سے زیادہ اختیارات دیں، وفاق کی توسیع پسندانہ عزائم نے صوبوں کے احساس محرومی اور بے چینی میں مزید اضافہ کردیا ہے۔
جلسے سے نیشنل پارٹی کے مرکزی سیکرٹری جنرل جان محمد بلیدی نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان کا رکھوالا بلوچستان کا مجموعی عوام ہے اور یہ بابائے بلوچستان کا مرہون منت ہے کہ انہوں نے نہ صرف بلوچ بلکہ سندھی اور پشتون کو صوبائی حیثیت دینے کے لیئے ون یونٹ کے خلاف بھرپور جدوجہد کی اور پھر میر حاصل بزنجو نے بلاخوف و لالچ بابائے جلوچستان کے نقش و قدم پہ چلتے ہہے بلا خوف ولالچ محروم اقوام اور مظلوم طبقات کا دفاع کیا۔
انہوں نے کہا کہ 2018 کے سلیکشن کے نتیجے میں جو لوگ بلوچستان سے اسلام آباد گئے انہوں نے بلوچستان کے مفادات اور وقار کا سودا کیا۔
دیگر مقررین نے کہا کہ طاقت کا سرچشمہ عوام ہے عوامی مینڈیٹ کا احترام کرنا چاہیے بلوچستان میں قوم دوستی کی سیاست کو ختم کرنے کے لیے نت نئے حربے استعمال کیے جارہے ہیں لیکن قوم دوستی کی جدوجہد کو ختم نہیں کیا جاسکتا۔ نیشنل پارٹی جمہوری عوام دوست جماعت ہے اس جوجہد کے ذریعے ملک کو ایک جمہوری مملکت بنایا جاسکتا ہے۔ ساحل وسائل کے باوجود بلوچستان کے لوگ غربت افلاس اور بیروزگاری کی زندگی گزار رہے ہیں ۔
مقررین نے پارٹی کے مرکزی رہنما دوران کھوسو پر قاتلانہ حملے کی مذمت کرتے ہوئے واقع میں ملوث عناصر کی گرفتاری کا مطالبہ کیا ۔
مقررین نے کہا کہ تاریخ ان لوگوں کو یاد رکھتی ہے جو زندگی بھر منصفانہ معاشرہ کے قیام کے لیئے جدوجہد کی۔بلوچستان کا مسئلہ سیاسی مسئلہ ہے گفت و شنید سے حل کیا جائے۔ گفت و شنید کا سلسلہ نیشنل پارٹی نے شروع کیا لیکن بعد میں اس عمل کو سبوتاژ کیا گیا۔