مہرزاد اب کوہ زاد بن گیا تھا
تحریر: نوشاد بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
کئی عرصے بعد مہرزاد وقت نکال کر نیٹورک پہ آیا تھا مسلسل ایک یا ڈیڑھ گھنٹے وہ چڑھ کے اُس پہاڑ کی چوٹی پر پہنچا جہاں وہ تھوڑی دیر آرام کرکے نیٹورک تلاش کرنے لگا، نیٹورک کے آتے ہی موبائل کے اسکرین پر ایک نامعلوم نمبر سے اُسے ایک میسج ملا اس میسج کو پڑھتے ہی مہرزاد کے پیروں تلے زمیں نکل گئی۔
اس مختصر سی میسج میں روح کو نکالنے والے الفاظ تھے وہ الفاظ جن کا شاید ہی پہلے سے اُسے اندازہ ہوا ہو لیکن ان الفاظ کا بوجھ وہ اپنے لاغر جسم و کمزور کندھوں پر اُٹھا نہیں پایا، اس کے ہاتھ لرز گئے جیسے اسُ کا دل بیٹھ سا گیا میسج صرف اتنا تھا تم آرہے ہو یا میں ہاں کہہ دوں!
نیچے لکھا ہوا تھا مہرجان
وہ میسج مہر جان کا تھا مہر جان مہرزاد کے گاؤں کی ایک لڑکی تھی بچپن میں اسکول کے وقت سے وہ دونوں بہت اچھے دوست تھے گاؤں کے باقی بچوں سے الگ وہ صرف ایک دوسرے کے ساتھ کھیلا کرتے تھے وہ بس مہرجان کے دوستی کی وجہ سے اسکے ساتھ جایا کرتا تھا گاؤں کے باقی بچوں کے برعکس مہرجان زیادہ ذہین اور ہونہار تھی وہ مہرزاد کے اسکول کے کتابیں اور کاپیاں اکثر اپنے بستے میں ساتھ لے جایا کرتے تھے۔ مہرجان کی بڑی بہن زلیخاء سے اپنے کل کے سبق کو یاد کرکے پھر کھیلنے جاتے تھے انکا بہت چھوٹا سا گاؤں تھا بیس عدد گھروں پر مشتمل تھا ۔
دن گزرتے گئے وہ دونوں بھی بڑے ہوگئے مہرزاد بہ مشکل آٹھویں پاس کرکے نویں اور دسویں جماعت کے لیے اپنے گاؤں سے تھوڑی دور دوسرے اسکول میں داخلہ لیا قسمت وہاں بھی اسکے سب سے پیاری دوست مہرجان کو لے آئی۔۔۔ لیکن انکی یہ محبت کے دن زیادہ دیر سکون کے ساتھ نہ چل سکے یہ بات مہرجان کے گھر والوں کو معلوم ہوگئی، امی نے مہرجان کے ابو سے کہہ کر اسکی اسکول بند کروادی۔
مہرجان کے لیے اب گھر سے نکلنا دشوار سے دشوار ہوتا گیا اب وہ ایک دوسرے کو زیادہ تر دیکھ نہیں سکتے تھے۔
کچھ دن گزرنے کے بعد مہرجان نے اپنے دوست کے ہاتھوں یہ پیغام پہنچایا کہ میرے ابو مجھے شہر میرے چاچو کے گھر پڑھنے بھیج رہے ہیں یہ سُن کر مہرزاد کے لیے زمین اور تنگ ہونے لگی۔
تم آرہے ہو یا میں ہاں کہہ دوں۔
یہ میسج پڑھتے ہی پھر اسے ایک وائس میسج موصول ہوئی یہ آواز اس کے لیے کوئی نئی آواز نہیں تھی لیکن پرانی ضرور تھی شاید اس آواز کے لیے وہ مدتوں سے انتظار میں تھا جیسے یہ آواز سُن کر اسکے دل اور کانوں کو سکون ملا ہو، چند سیکنڈوں کے اس وائس میسج میں اسے صرف سسکیاں سنائی دی۔
اس نے خیریت پوچھا تو کہنے لگی میرے چاچا زاد کے ساتھ میرے ابو نے رشتہ طے کیا ہے اور مجھے ان سے شادی کرنے کو کہہ رہے ہیں، لیکن میں اب تک جیسے تمہارے انتظار میں بیٹھی ہوں میں اس شخص کے ساتھ کبھی اپنی مستقبل گزار نہیں سکتی جسے کبھی میں نے اپنا ہمسفر تصور نہ کیا ہو۔
اور یہ لوگ تمہارے بارے میں کیا کہہ رہے ہیں کہ تم ابھی واپس کبھی نہیں لوٹ آؤگے، کہہ رہے ہیں تم ایک ایسے راستے پر ہو جس کی کوئی اختتام نہیں، تم نے ایک نا ختم ہونے والے راستے کو چنا ہے وہاں ہر روز گولہ بارود، گولیوں کی بھوچاڑ ہے۔ تمہارا ہر دن ہر رات زندگی اور موت کے چند فاصلوں پر ہے۔
کیا واقعی تم ایک تشدد زدہ راستہ اختیار کرچکے ہو۔
میں تمہیں کہا کرتی تھی جن کتابوں اور ناولوں کو تم پڑھ رہے ہو ان سے مجھے خون کی بو آتی ہے۔
تمہارے کپڑوں پر بنے پیوند میرے کلیجہ منہ کو لاتے ہیں اور تم نے اپنے قد سے لمبا رائفل اٹھایا ہے تم تو اپنی کتابیں بھی میرے بستے میں رکھتے تھے اب اتنے بڑے بوجھ کیسے اٹھانے لگے ہو۔
ابو کہہ رہے تھے تم روح پوش ہو تم اپنے گھر بھی سالوں بعد راتوں کے اندھیرے میں چھپ کر آتے ہو۔۔۔۔۔۔
تم آرہے ہو یا میں ہاں کہہ دوں؟
مہرجان جب تم گاؤں چھوڑ کر شہر پڑھنے چلی گئی تھی اسی دن سے میں نے بھی وہ گاؤں چھوڑ دیا ہے وہ لوگ وہ گھر دوست رشتہ دار ان سب کو پیچھے چھوڑ کر میں بہت دور نکل گیا ہوں۔
ہاں میں ایک تشدد زدہ راستہ اختیار کر چُکا ہوں لیکن اسکا مطلب ہرگز یہ نہیں میں اب خون خوار بن گیا ہوں میں نے یہ تشدد کا راستہ صرف اپنے قوم اپنے بقاء کے لیئے اختیار کیا ہے اور تمیں کس نے کہا اس راستے کا کوئی اختتام نہیں ہے اس راستے کا اختتام ہے، اسکا اختتام آزادی ہے، اس دوران جنگ میں دشمن کی گولی اپنے سینے میں پیوست کرنا یا پھر اپنے گولیوں سے اپنا کھوپڑی اُڑانا بھی اختتام ہے!
میں اور کچھ سننا نہیں چاہتی۔۔۔۔
یہ باتیں میں برسوں سے سنتی آرہی ہوں کیا اب تُم واپس آرہے ہو یا نہیں میں مانتی ہوں ہمارے راستے بہت پہلے الگ ہوئے تھے لیکن مجھے تمہاری ضرورت ہے میں بہت مشکل میں ہوں میرے گھر والے زبردستی مجھے ایک ایسے رشتے میں باندھ رہے ہیں جس سے میں انکاری ہوں وہ میرے مرضی کے خلاف میرے زندگی کا فیصلہ کر رہے ہیں۔
تم خدا کے واستے اب آجاؤ ہم بہت دور جائینگے ان لوگوں کے نظروں سے اس جہاں کے نظروں سے ہم ایک نئی امید کے ساتھ ایک نئے زندگی کی شروعات کرینگے۔
ان جنگوں میں کچھ نہیں رکھا، دشمن کے پاس ہزاروں کی تعداد میں سپاہی موجود ہے، لڑنے کو بارود ہے وسائل ہے گولیاں ہے کرائے کے فوجی ہیں طیارے ہیں جیٹ ہے ٹیکنالوجی ہے تمہارا دشمن زور آور ہے تم جیت نہیں سکتے تم ضد پہ اڑے ہو تم بات نہیں مانتے تمہارا یہی مسئلہ ہے۔
تم آرہے ہو یا میں ہاں کہہ دوں!
مہرجان کے اس سوال سے اب مہرزاد ایک گہرے سوچ میں پڑگیا اب وہ بچپن کی پرانے یادیں گویا ایک کتاب کے صورت کھل کر سامنے آئے۔ وہ جس کے لیے ہزاروں خواب آنکھوں میں سمائے تھیں آج وہ کسی اور نام کے ساتھ جُڑنے جا رہی تھی لیکن مہرزاد بے بس تھا وہ کچھ نہیں کرسکتا تھا۔
وہ اپنے ذمہ داریوں کے ہاتھوں مجبور تھا وہ جس مقصد کے لیئے نکل پڑا تھا اس مقصد سے دست بردار نہیں ہونا چاہتا تھا اپنے شہید سنگتوں کے ساتھ کیا گیا وہ وعدہ توڑنا نہیں چاہتا تھا۔
وہ جو اپنے بندوقوں کو دشمن کے قدموں میں رکھ کر وطن مقصد شہداء اور آنے والے نسلوں کے سودا گر تھا۔
لیکن نہیں
پر کیوں
کیونکہ مہرزاد تو اب کوہ زاد بن گیا تھا۔
ہلکی سی آواز میں آنکھوں میں آنسوں لیئے نرم لہجے کے ساتھ اپنے بندوق کی طرف دیکھ کر مہرزاد کہنے لگا مہرجان تم پوچھ رہی ہو نہ!
تم پوچھ رہی ہو، میں آرہا ہوں یا تم ہاں کہہ دو۔
مہرجان تم ہاں کہہ دو کیونکہ میں نہی آسکتا!
لیکن یہ جنگ ایک لمبی جنگ ہے یہ جنگ بظاہر ایک مظبوط پہاڑ سے سر ٹکرانے کے مترادف ہے یہ جنگ آج یا کل ختم ہونے والی جنگ نہیں
وہ وطن سے محبت اور قومی آزادی کے جنون سے ناواقف تھی ۔۔۔۔۔۔
انہی الفاظ کے ساتھ وہ رخصت کرکے چلی گئی۔
وہ مہرزاد کو سمجھنا نہیں چاہتی تھی شاید وہ بس اطلاع کرنے آئی تھی مہرزاد کو کہ اب میں تمہارے ہاتھوں سے اور بھی بہت دور ہمیشہ کے لیئے نکل رہی ہوں۔
شام کا وقت ہونے کو تھا آفتاب بھی غروب ہونے کو تھا۔
مہرزاد اٹھا اور جلدی اپنے بندوق کو کندھے میں لٹکاکر اپنے اوتاخ کی طرف چلنے لگا۔
جاتے ہوئے وہ مہرجان کے خیالات میں گم تھا۔۔۔۔۔ مہرزاد اپنے پہلے دن کے معلوم پر لگ گیا۔
مہرزاد ن اب پہلے سے زیادہ خود کو اس تحریک میں مضبوط پایا
وہ اپنے ان پریشانیوں اور امتحانات سے مزید مضبوط ہوگیا۔
وقت گذرتا گیا وہاں مہرجان کی بھی شادی ہوگئی تھی اب وہ ایک بچے کی ماں بن گئی تھی۔
دورانِ جنگ مہرزاد ایسے کئی محاذوں پر لڑا تھا اس طرح کے کئی جنگوں سے نکل کر گھیروں کو توڑ کر بجانب منزل بڑھا تھا۔
آج بھی مہرزاد دشمن کے گھیرے میں آیا تھا وہ کئی گھنٹوں لڑتا رہا لڑتے لڑتے ناجانے کتنے دشمنوں کو موت کے گھاٹ اُتارا، مہرزاد چاروں طرف سے دشمن کے گیرے میں اپنی جنگی حکمت عملیوں کے ماتحت دشمن پر بجلی کی طرح کڑکتا رہا کرائے کے فوجی ہر طرح سے پسپا ہوگئے تھے ایک جانب دشمن ہیلی کاپٹروں کے ذریعے نئے دم دستہ اہلکار اتارتا رہا دوسری جانب بھوکے پیاسے وطن کے دیوانے مہرزاد اور اسکا دستہ دشمن کو ناکو چنے چبواتے رہی کئی گھنٹوں کے اس لڑائی میں اپنے ساتھیوں کو محفوظ سمت پہنچا کر مہرزاد اپنے دو ساتھیوں سمیت شہادت جیسے اعلیٰ رتبہ کو اپنے نام کرگیا، کئی گھنٹوں سے جاری گولیوں کی آواز بم دھماکوں بارود کی بو ہر سمت مشین گن، سر کے اوپر منڈلاتے ہیلی کاپٹروں کی گڑگڑاہٹ میں اب فکری کلاشنکوف کی گولیوں کی آوازیں آنا بند ہوگئے تھے۔ خوفزدہ دشمن موت کے ڈر اور اپنی شکست چھپانے کے لیئے اندھا دھند فائرنگ جاری رکھا ہوا ہے جب انہیں اندازہ ہوا بندوقیں اب صرف یک جانب سے گولیاں برسا رہے ہیں تو وہ شہدا کی جانب اپنی پیش قدمی بڑھاتے رہیں وہاں جاکر جب انہیں پتا چلا ہمارے ہزاروں کے فوج کو ایسے بری طرح سے شکست دینے والے پھٹے پرانے کپڑوں میں ننگے پاؤں یہ لاغر جسم تین جنگجو تھے تو اپنی نفرت کی آگ انکے میتوں پر اتارنے لگے۔
تین دنوں بعد اس خونی آپریشن کا جب اختتام ہوا۔ تنظیمی بیان نشر ہوئی جس میں تنظیمی ترجمان نے اپنے تین ساتھیوں کے شہادت اور دشمن کے کئے سپائیوں کو موت کے گھاٹ اترانے کا اعتراف کیا تھا ہر جگہ شہداء کے تصاویر نشر ہونے لگے ہر کوئی انہیں فخر سے خراج تحسین پیش کرنے لگا۔
ہر ایک زبان پر مہرزاد اور اسکے ساتھیوں کے بہادری کے قصے تھے۔
مہرزاد کے امی کی خواہش تھی مہرزاد کے میت کو انکی آبائی علاقہ کے قبرستان میں انکے ابو کے قبر کے پاس دفن کردیا جائے۔
بہادر ماں کی خواہش کا احترام رکھتے ہوئے ساتھیوں نے اس کے میت کو انکے گاؤں لیجانے کا مشورہ کیا یہ بات ہر جگہ پھیل گئی اور کوئی مہرزاد کے آنے کا منتظر تھا دوستوں رشتہ داروں کے آنکھیں اشک بار سر فخر سے بلند تھے دور دراز سے لوگ آج وطن کے دیوانے کو دیکھنے آرہے تھے۔
وہاں سے قافلہ روانہ ہو گیا تھا آگے ایک ایمبولینس پیچھے موٹرسائیکلوں پر سوار مہرزاد کے مسلح ساتھی بیچ بیچ سے بہت سے لوگ شامل ہوتے گئے سینکڑوں کا قافلہ جب مہرزاد کے گاؤں کو پہنچا استقبال کے لیئے پہلے سے لوگ ہاتھوں میں پھول لیئے موجود تھے ہر کسی کی کوشش تھی وہ کسی طرح سے ایمبولینس کو ہاتھ لگا سکے چوم سکے۔ جب ایمبولینس رکھی اسکے ساتھیوں ہجوم کو اپنے طرف متوجہ کرکے کہنے لگے ہمیں قومی سپائی کے آخری رسومات کو قومی اعزاز کے ساتھ پورا کرنے دیں ہم اپنے شہید سنگت کو آخری بار فکری بندوقوں کے سلامی کے ساتھ رخصت کرنا چاہتے ہیں پھر اسکے بعد شہید سنگت آپ لوگوں کے حوالے ہے، سارے لوگ تیزی کے ساتھ وہاں سے دور ہوگئے، مہرزاد کے میت کو گاڑی سے اتارا گیا۔
میت کو سامنے رکھے ساتھیوں نے اپنے بندوقیں چیمبر کرکے انکا نلی آسمان کی طرف کرکے انقلاب زندہ باد کے نعروں کے ساتھ فائر کرنے لگے، یکے بعد دیگر آکر شہید کے پیشانی کو بوسہ دینے لگا، سلوٹ مار کے رخصت اف اوار اُن سنگت کہہ کر احتراماً دوبارہ پیچھے کی طرف چل کر بغیر اپنا پیٹھ پھیرے اپنی جگہ پر جاکر کھڑے ہوتے گئے، گاؤں کے بوڑھے جوان مرد عورت بچے یہ منظر اپنے آنکھوں سے دیکھ رہے تھے ہر ایک کے آنکھوں میں آنسوں تھے، ہر ایک کے دل میں جہد آزادی کا جذبہ اُبھرنے لگا۔
ان میں سے ایک شخص اونچی جگہ کھڑے ہوکر ہجوم کو اپنی طرف متوجہ کرکے زور سے کہنے لگا اے لوگوں یہ وہی مہرزاد ہے جو یہاں کے گلی کوچوں میں ہنستا کھیلتا بڑا ہوگیا یہ وہی مہرزاد ہے جو قومی آزادی کا جذبہ لیے اسی گاؤں سے بن بتائے رخصت ہوا تھا یہ وہی مہرزاد ہے جس کے خاندان سے گاؤں کے چھوٹے بڑے سب نے اپنا منہ پھیر لیا تھا یہ وہی مہرزاد ہے جو ہماری اور تمہاری مستقبل کے لیے اپنا سب کچھ قربان کیا۔ آج یہ تمہارے درمیان پھر سے آیا ہے آج یہ تُم لوگوں سے کچھ مانگنے نہیں آیا ہے بس ایک پیغام پہنچانے آیا ہے پیغام یہ وطن کے ساتھ محبت کرنے والے کبھی فراموش نہیں ہوتے، انہیں کوئی نہیں بھولتا، وطن کے دفاع میں شہادت پانے والوں کے شان میں کوئی کمی نہیں آتی، وطن سے عشق کرنا کوئی گناہ نہیں جہد آزادی سے منسلک ہونا کوئی جرم نہیں۔
اے لوگوں مہرزاد نے تمہارے آنے والے نسلوں کے لیئے اپنا سب کچھ قربان کردیا، مہرزاد کو کبھی فراموش نا کرنا، مہرزاد کے اس جہد کو آگے لیجانا، اپنے بچوں کو کبھی اس جہد سے غافل نا رکھنا، اپنے بچوں کو آزادی کے روشن صبح کی لوریاں سنانا۔ مہرزاد کے ساتھی وہاں سے رخصت ہوگئے۔
علاقے کے دیگر لوگوں نے میت کو اپنے حوالے لیا، دوستوں نے دیدار کی رشتہ داروں نے ہر کوئی لپٹ لپٹ کے رونے لگا۔ مہرجان بھی وہاں موجود سب کچھ دیکھ رہی تھی وہ اپنی پریشانی لوگوں کے سامنے نہیں لانا چاہتی تھی وہ رو نہیں رہی تھی لیکن اسکی آنکھیں لال ہوچکے تھے اسکا چہرہ زرد ہوچکا تھا۔
شاید وہ اسی بات سے ڈرتی تھی کہ کئی مہرزاد سے سامنا نا ہو لیکن آج وہ اپنے قدموں کو روک نہیں پائی اپنے ارمانوں اور جذبات پر قابو نہیں پاسکی وہ آگئی شاید وہ مہرزاد کے بلانے پر پلٹ آئی ہو لیکن مہرزاد اسے نہیں دیکھ سکتا تھا۔
مہرجان سماج کی روایتی زنجیروں میں جکڑی ہوئی تھی۔ وہ چیخنا چاہتی تھی چلانا چاہتی تھی وہ مہرزاد کے خون سے لت پت میت سے لپٹ لپٹ کر رونا چاہتی تھی۔
وہ گلا پھاڑ کے یہ اعلان کرنا چاہتی تھی کہ یہ میری محبت تھی یہ مجھ سے پیار کرتا تھا ہم ساتھ جینا مرنا چاہتے تھے ہم نے بہت سے خواب سمائے تھے وہ بہت کچھ کہنا چاہتی تھی لیکن وہ کچھ نا کہہ سکی وہ بس کھڑی مہرزاد کے لاش کو دیکھتی رہی اور خاموشی سے اپنے آنسو چُھپاتی رہی وہ یہ ملاقات برداشت نہیں کر سکی شاید اسی لیئے وہ مہرزاد کو کہہ رہی تھی کہ اب کی بار ہمارا سامنا نا ہو۔
مہر جان، مہرزاد کے میت کے پاس بیٹھی رو رہی تھی کچھ وقت بعد جب لوگوں نے مہر جان کو آوازیں دی وہ سن نہیں رہی تھی، چپ تھی جب اسکو ہاتھ لگایا دیکھا کہ مہرجان اپنے مہرزاد کے پاس مرچکی ہے۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔