سمو، مشعل ءِ راہ ۔ عائشہ اسلم بلوچ

884

سمو، مشعل ءِ راہ
تحریر: عائشہ اسلم بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ

سمو کو کیسے بیان کروں، کیا لکھوں اپنی پیاری دلیر سمو کے بارے میں، جب میں پہلی بار سمو سے ملی ایک خوبصورت سی خاموش مزاج، خوش اخلاق، مہر اور محبت کرنے والی لڑکی تھی۔ کبھی سوچا نہیں کہ سمو میری سب سے پکی دوست بن جائے گی اور ہماری یہ دوستی گیارہ سال کا سفر طے کریگی۔ کہنے کو تو یہ گیارہ سال تھے لیکن اب مجھے لگتا ہے یہ بہت ہی کم وقت تھا جو سمو کے ساتھ گذرے، اب ایسے لگتا ہے جیسے کچھ ہی پل گذرے تھے سمو کے ساتھ۔

سمو آپ کا وہ ہنسنا، آپ کی وہ میٹھی باتیں، وہ مذاق، وہ مجھے تنگ کرنا، پوری رات جاگنا اور صبح تک مجلس کرنا۔ سمو میری زندگی کا ایک خوبصورت اور خاص گوشہ ہے۔ فکر و نظریاتی رشتے سب سے اہم و عزیز ہوتے ہیں، وقت گذرتا گیا سمو کیساتھ یہ رشتہ اور گہرا ہوتا چلا گیا۔ سمو ہر شے کو بہت ہی گہرائی سے دیکھتی تھی اس کی سوچ، اس کا نظریہ اتنا مضبوط تھا، جس کا اندازہ اس کی باتوں سے لگائی جاسکتی تھی۔

جب ریحان جان شہید ہوا مجھے سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ سمو سے کیسے بات کروں، پتہ نہیں وہ کس حالت میں ہوگی لیکن سمو نے مجھے حیران کردیا یہ کہہ کر مجھے کوئی افسوس نہیں، میں تو بہت خوش ہوں کہ جو ریحان جیسا ہمسفر مجھے ملا، ریحان نے اپنا قومی فرض ادا کیا ہے جو ہم سب سے پہلے تھا۔

سمو میں کہتی ہوں ریحان جان بھی خوش قسمت تھا جسے تم ملی، آپ دونوں ایک رشتے میں بندھے، زندگی کا ایک نیا سفر شروع کیا لیکن جب بات سرزمین کی آئی تو آپ دونوں نے اپنا فرض ادا کیا، سرزمین سے بڑھ کر کچھ نہیں ہے۔ اس بات کو بلوچ شہداء نے عملاً ثابت کردیا ہے۔

سمو نے کبھی بھی ہار نہیں مانی اس نے ہر طرح کے حالات کا مقابلہ کیا۔ اس نے اپنے کارروائی کیلئے انتظار کے پانچ سال صبر آزما برداشت کی، شاید اس راہ کا انتخاب کرنے والوں کیلئے انتظار ہی سب سے بڑا تکلیف دہ عمل ہوتا ہے۔ آخر کار وہ مقصد کو پہنچ کر ہمیشہ کے لیے سرخرو ہوگئی۔

سمو نے اپنے وطن کا درد بہت گہرائی سے محسوس کیا اسے غلامی سے شدید نفرت تھی، وہ دشمن کو ایسا سبق سکھانا چاہتی تھی کہ دشمن کبھی بھی بھول نہ پائے اور سمو نے ایسے ہی کیا۔ دشمن بھی پریشانی کے عالم میں ہے کہ بلوچ اپنی آزادی کیلئے کس حد تک جاسکتے ہیں اور آنیوالے دنوں میں اس جنگ کی شدت کیا ہوگی۔

یہ ہمارا ایمان ہے کہ سمو اور بلوچستان کے شہداء کی لہو ایک دن ضرور رنگ لائے گی بس ہمیں سوچنا اور سمجھنا چاہیے کہ عظیم مقصد آزادی کیلئے ہمیں اپنی ذاتی زندگیوں سے نکل کر قومی فرض پر توجہ دینی ہوگی تب ہی ہم کامیاب ہونگے اور اپنے آنے والی نسل کو ایک آزاد اور خوشحال زندگی دے پائینگے۔

سمو وہ کتاب ہے جسے سب پڑھ رہے ہیں اور بلوچ قوم کی آنے والی نسلوں کیلئے یہ کتاب مشعل راہ ثابت ہوگی بلکہ اس کتاب سے دنیا بھر کی مظلوم اقوام مستفید ہونگے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔