بلوچ یکجہتی کمیٹی کے رہنماؤں نے آج کوئٹہ پریس کلب میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایک عرصے سے یہاں کام کرتے ہوئے آپ ہماری پریس کانفرنسز کا متن اکثر جان چکے ہوتے ہیں کہ ہم یہاں پر کیوں اور کس مقصد کیلئے آتے ہیں اور ہر بار آپ سمیت ریاست کے تمام اداروں کو اپنی التجاء اور بلوچستان میں جاری انسانی حقوق کی ناجائز خلاف ورزیوں کے حوالے سے آگاہ کرتے ہیں لیکن ان انسانی حقوق کی پامالیوں کو بند کرنے اور بلوچستان کے لوگوں کو ریلیف دینے کے بجائے بلوچستان میں ہر گذرتے مہینے کے ساتھ غیر قانونی اور غیر آئنی و ریاستی ناانصافیوں میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ بلوچستان کو اس وقت ریاستی فورسز، سیکورٹی ایجنسیوں، سرکاری ڈیتھ اسکواڈز، ریاستی سرپرستی میں جاری جرائم پیشہ گروہ اور براہ راست ریاستی جبر کا شدید سامنا ہے اور ان غیر انسانی، غیر آئینی، غیر اخلاقی اور ہر طرح کی ناانصافیوں کا سلسلہ تھمنے کا نام نہیں لے رہا ہے۔ ہر دن گھروں میں چھاپے، آپریشنوں کے نام پر چادر و چار دیواریوں کی پامالی، جبری گمشدگی، فیک انکاؤنٹرز، ٹارگٹ کلنگ، تشدد، چیک پوسٹوں پر تذلیل، جرائم پیشہ افراد کے ذریعے اغواء برائے تاوان و دیگر جرائم سمیت ہر طرح کی جبر اور وحشت کا سلسلہ جاری ہے۔
انہوں نے کہا کہ ریاستی تشدانہ پالیسیوں کی وجہ سے اس وقت بلوچستان میں ایک غیر یقینی صورتحال جنم لے چکی ہے جس سے بلوچستان کا گھر گھر متاثر ہے۔ ریاستی مظالم کے خلاف بلوچستان بھر میں احتجاج و مظاہرے جاری ہیں لیکن بلوچستان کے حوالے سے عدالت عالیہ سے لیکر میڈیا تک سب کو سانپ سونگھ گئی ہے۔ آج کے پریس کانفرس کا مقصد ماہ جولائی میں ریاستی جرائم اور بلوچستان میں جاری انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کی رپورٹ آپ کے سامنے پیش کرنا ہے۔
پریس کانفرنس میں کہا گیا کہ ماہِ جولائی کا آغاز مشکے میں ریاستی حمایت یافتہ گروہ کے ہاتھوں عیسی ولد جنگی خان کو قتل کیا گیا، فائرنگ کے واقعے میں ایک بچہ بھی زخمی ہو گیا تھا۔ عیسی قتل ہونے سے پہلے چار مرتبہ سیکورٹی فورسز کے ہاتھوں جبری طور پر گمشدگی کے شکار بھی رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ عید کے فوری بعد بلوچستان سے جبری طور پر جبری گمشدگیوں کا سلسلہ پنجاب یونیورسٹی سے شعبہ تاریخ میں فارغ التحصیل اور اپنی بیوہ والدہ کا سہارہ سالم بلوچ کو ایک 4 جولائی کی رات ایک چھاپے کے دوران تربت آبسر سے ان کے گھر سے اٹھا کر جبری طور پر گمشدگی کا نشانہ بنایا گیا۔ اسی رات ایک اور گھر میں چھاپہ مارتے ہوئے اکرام نامی شخص کو بھی حراست میں لیا گیا، تین دن کے تشدد کے بعد اکرام بلوچ کو بازیاب کیا گیا لیکن سالم بلوچ ایک مہینہ گزرنے کے بعد بھی سیکورٹی فورسز کے زیر حراست میں ہیں۔ سالم بلوچ کی بازیابی کیلئے ایمنسٹی انٹرنیشل سے لیکر ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان اور خاندان و ساتھی طالب علموں کی جانب سے احتجاجی مظاہرے بھی ریکارڈ کیے گئے لیکن ایک مہینہ گزرنے کے باوجود سالم بلوچ اب بھی منظر عام سے غائب ہیں اور انہیں غیر قانونی و غیر انسانی اذیت گاہوں میں ٹارچر کیا جا رہا ہے جبکہ ان کی زندگی کو بھی شدید خطرات لاحق ہیں۔
انہوں نے کہا کہ 4 جولائی کو ایک دیگر کارروائی میں سیکورٹی فورسز کے اہلکاروں نے ضلع کیچ دشت بلنگور کے رہائشی گلاب ولد جمال بلوچ کو سرحدی علاقے سے غیر قانونی طور پر حراست میں لیکر جبری گمشدگی کا نشانہ بنایا۔ خاندان اس کی باحفاظت رہائی کیلئے فکرمند ہے جبکہ اس کے حوالے سے کسی کو کوئی بھی معلومات فراہم نہیں کیے جا رہے ہیں۔
4 جولائی کو کراچی میں ایک آپریشن کے دوران خضدار کے رہائشی محمد رضوان ولد محمد رمضان نتھوانی کو غیر قانونی طور پر حراست میں لیکر نامعلوم مقام پر منتقل کیا گیا جس کے حوالے سے خاندان لاعلم ہے جس سے ان کی زندگی کو شدید خطرات لاحق ہیں۔ سیکورٹی فورسز کے حراست میں تمام افراد کی زندگیوں کو شدید خطرات لاحق ہوتی ہے جنہیں کسی بھی وقت فیک انکاؤنٹر یا ان کی مسخ شدہ لاش پھینک دی جا سکتی ہے۔
5 جولائی کو خاندانی ذرائع سے معلوم ہوا کہ کراچی سے خضدار کے رہائشی دو افراد محمد ولد محمود اور عاصم ولد محمد اعظم کو ایک آپریشن کے دوران 17 جون کو سیکورٹی اداروں کے اہلکاروں نے حراست میں لیکر نامعلوم مقام پر منتقل کیا گیا ہے جن کے حوالے سے کسی خاندان کو لاعلم رکھا گیا ہے، خاندان نے ریاستی اداروں سے ان کی باحفاظت بازیابی کا مطالبہ کیا۔
6 جولائی کو ایک اور خاندان نے اپنے پیارے کی فورسز کے ہاتھوں جبری گمشدگی کے حوالے سے خاموشی تھوڑتے ہوئے میڈیا کو آگاہ کیا کہ سیکورٹی فورسز کی جانب سے 15 جون کو عبدالوحید ولد عبدالحمید کو کوئٹہ سے ایک چھاپے کے دوران سیکورٹی فورسز کے اہلکار اٹھا کر لے گئے ہیں اور ان کے حوالے سے خاندان کو لاعلم رکھا جا رہا ہے۔ خاندان کو ان کی زندگی کا فکر لاحق ہے۔
10 جولائی کو تمپ دازن سے چھاپے کے دوران سیکورٹی فورسز کے اہلکاروں نے مقامی رہائشی فاروق ولد حمید بلوچ کو جبری طور پر گمشدگی کا نشانہ بناکر نامعلوم مقام پر منتقل کیا۔
10 جولائی کو منگچر سے لاپتہ افراد کے لواحقین لاپتہ نوید بلوچ، شاہان بلوچ، کفایت بلوچ اور قزافی نچاری کے لواحقین شامل تھے نے شال(کوئٹہ) ٹو کراچی مرکزی شاہراہ کو بند کرکے اپنے پیاروں کی بازیابی کا مطالبہ کیا۔ جنہوں نے بعدازاں مقامی انتظامیہ کی اس یقین دہانی پر اپنا دھرنا ختم کیا کہ ان کے لواحقین کو جلد از جلد غیر قانونی حراست سے بازیاب کیا جائے گا۔
11 جولائی کی رات تمپ سے ماسٹر برکت کے سترہ سالہ نوجوان بیٹے حکمت علی کو ایف سی کے اہلکاروں نے ایک غیر قانونی چھاپے کے دوران اٹھا کر جبری طور پر لاپتہ کیا۔
12 جولائی کو نوشکی سے تین روز قبل لاپتہ طاہر خان کی مسخ شدہ لاش برآمد کی گئی جنہیں بدترین تشدد کے بعد قتل کیا گیا تھا اسی طرح دالبندین سے بھی ایک مسخ شدہ لاش برآمد کی گئی، ان واقعات کی اب تک شفاف تحقیقائی نہیں کرائی گئی ہے۔
12 جولائی کو بلوچستان کے ضلع ڈیرہ بگٹی میں آپریشن کا آغاز کیا گیا جس کے نتیجے میں متعدد افراد کو جبری طور پر گمشدگی کا نشانہ بنایا گیا جبکہ کئی علاقوں میں بمباری اور فائرنگ بھی کی گئی جس سے لوگوں کے معاش کو شدید نقصان پہنچا اسی طرح آپریشن کے دوران متعدد افراد کو جبری طور پر گمشدگی کا نشانہ بنایا گیا جس میں ڈیرہ روشن ہوتکانی ، طارق ولد سفر خان بگٹی، جمعہ ولد الہ الدین بگٹی، حصو بگٹی، مری بگٹی، خیرا بگٹی، ٹھارو بگٹی، احمد علی بگٹی، حسینو دادن اور پنھل بگٹی شامل ہیں۔
11 جولائی کی ہی رات ایک اور چھاپے میں ڈیرہ غازی خان سے تعلق رکھنے والے بلوچ راج کے ممبر و سیاسی کارکن عبدالستار بلوچ کو سیکورٹی فورسز کے اہلکاروں نے چھاپے کے دوران جبری طور پر گمشدگی کا نشانہ بنایا۔ عبدالستار بلوچ ڈیرہ غازی خان میں حالیہ دنوں سیکورٹی فورسز کی جبری گمشدگیوں کی پالیسی کا شکار رہے جنہیں تقریبا پانچ دن تک غیر قانونی حراست میں لینے، تشدد کرنے اور دھمکانے کے بعد رہا کیا گیا۔ بلوچستان میں سیاسی جدوجہد ممنوع بنایا گیا ہے جس کی وجہ سے سیاسی کارکنان ریاستی فورسز کے مظالم کے زیر عتاب ہیں۔
13 جولائی کو ضلع بارکھان سے ایک چرواہا اللہ بخش ایک ماہ جبری گمشدگی کے بعد مسخ شدہ لاش کی صورت میں برآمد ہوا۔ اللہ بخش کی مسخ شدہ لاش پر بھی سرکار اور حکومت کی طرف سے کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔
14 جولائی کو کوئٹہ میں چھاپے کے دوران سیکورٹی اہلکاروں نے ڈھاڈر کے رہائشی ظہور احمد ولد جام خان اور آواران کے رہائشی طالبعلم آعظم ولد اللہ داد کو جبری طور پر گمشدگی کا نشانہ بنایا جس کی وجہ سے لواحقین ان کے حوالے سے بے حد فکر مند و پریشان ہیں جنہیں غیر قانونی جیل میں بند کر دیا گیا ہے اور خاندان تک کو اس کے لوکیشن کا علم نہیں۔
انہوں نے کہا کہ آواران میں سیکورٹی فورسز کی جانب سے 14 جولائی کو رات گئے ایک آرپیشن کے دوران ستر سالہ بزرگ دینا، جن کے ایک بیٹے اور کزن پہلے ہی جبری گمشدگی کے بعد مسخ شدہ لاش کی صورت میں واپس لوٹائے گئے سمیت داد بخش ولد علی محمد اور زباد ولد سخی بخش کو شدید تشدد کا نشانہ بناتے ہوئے جبری طور پر گمشدگی کا نشانہ بنایا۔ ستر سالہ دینار کی جبری گمشدگی اس پستاہت پر مبنی سوچ کی عکاسی کرتی ہے جس کے شر اور تشدد سے بزرگ تک محفوظ نہیں ہیں۔
18 جولائی کی رات سیکورٹی فورسز نے ایک اور آپریشن میں تمپ سے مزید دو افراد فاروق ولد مراد اور پیر بخش کو غیر قانونی طور پر اٹھا کر جبری طور پر نامعلوم مقام پر منتقل کیا گیا جن کے حوالے سے خاندان کو کوئی علم نہیں۔ ریاستی چھاپے اکثر غیر قانونی اور ملک کی آئین کو روندتے ہوئے لگائے جاتے ہیں جن میں کسی بھی افراد کو اٹھا کر گمشدہ کرنا اور ان کی مسخ شدہ لاش پھینک دینا معمول ہے لیکن ان جرائم پر سوال کرنے والا کوئی نہیں ہے۔
18 جولائی کو کیچ میں ایک چھاپے کے دوران شہید کیگد بلوچ کے دو بیٹوں صغیر بلوچ اور رحیم ولد عبدالصمد کو جبری طور پر گمشدگی کا نشانہ بنایا گیا، اس سے پہلے بھی انہیں جبری طور پر گمشدگی کا سامنا رہا ہے اور ان کی والدہ بھی ایک چھاپے کے دوران انتقال کر گئیں تھی۔
19 جولائی کو سیکورٹی فورسز نے ایک آپریشن کے دوران خاران کے رہائشی و استاد حافظ اورنگزیب کو جبری طور پر گمشدگی کا نشانہ بنایا، ایک ہفتے تک شدید تشدد اور ٹارچر کے بعد انہیں رہا کر دیا گیا جس سے انہیں ذاتی طور پر شدید نقصان پہنچا اور ان کے لواحقین نے شدید ذہنی اذیت برداشت کی۔
19 جولائی کو فورسز نے تربت شہر کولواہ اسٹاپ سے دن دہاڑے دسویں جماعت کے طالب علم شاہد ولد چارشمبے کو غیر قانونی طور پر حراست میں لینے کے بعد نامعلوم مقام پر منتقل کر دیا۔ کمسن شاہد کی جبری گمشدگی بلوچستان میں بچوں کی جبری گمشدگی کے واقعات کی واضح نشانی ہے کہ بلوچستان میں ریاستی شر سے کوئی بھی محفوظ نہیں ہے۔
22 جولائی کو کراچی سے مند کے رہائشی نوجوان طفیل بلوچ اور مشکے کے رہائشی دینار ولد محمد اقبال کو جبری طور پر گمشدگی کا نشانہ بناکر لاپتہ کر دیا گیا جو کراچی سے بلوچ افراد کی جبری گمشدگیوں اور غیر قانونی حراست میں لینے کا تسلسل ہے جو شدت سے جاری و ساری ہے۔
23 جولائی کو تمپ سے ایک اور نوجوان راشد بلوچ کو جبری طور پر اٹھا کر نامعلوم مقام پر منتقل کر دیا گیا جن کے حوالے سے اب تک کسی کو کوئی بھی علم نہیں ہے۔ جس سے خاندان شدید اذیت میں ہے۔
24 جولائی کو منظر عام پر آنے والے ایک اور کیس کے مطابق فقیر محمد ولد نصیر احمد کو ناصر آباد سے اپنے زمیاد گاڑی سے جاتے ہوئے سیکورٹی فورسز کے اہلکاروں نے اٹھا کر جبری طور پر گمشدگی کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ جن کے حوالے سے تین ماہ گزرنے کے بعد کوئی معلومات نہیں۔ خاندان فکرمند اور ان کی باحفاظت بازیابی کا مطالبہ کر رہی ہے۔
25 جولائی کی رات اسلام آباد سے چھاپے کے دوران سیکورٹی و ایجنسیوں کے اہلکاروں نے پسنی و تربت کے رہائشی دو طالب علم جواد اقبال اور زید بلوچ کو جبری طور پر گمشدگی کا نشانہ بنایا گیا جو تعلیم کے غرض سے اسلام آباد میں رہائش پذیر تھے اور اپنی تعلیم جاری رکھے ہوئے تھے۔ اسلام آباد سے طالب علموں کی جبری گمشدگی اس بات کی غماز ہے کہ بلوچستان ہی نہیں بلکہ بلوچ بلخصوص نوجوان پاکستان کے کسی بھی کونے میں ہوں وہ محفوظ نہیں ہیں۔
26 جولائی کو آواران میں ریاستی سرپرستی میں قائم ڈیتھ اسکواڈز کے اہلکاروں نے محمد عظیم ولد محمد اعظم کو جبری طور پر گمشدگی کا نشانہ بنایا گیا۔
27 جولائی کو ایک آپریشن کے دوران گوادر سے بھی ایک طالب علم جبار ولد حاجی اسلم کو سیکورٹی فورسز نے جبرا لاپتہ کردیا ۔
پریس کانفرنس میں مزید رہنماؤں کا کہنا تھا کہ گوادر میں وزیراعظم شہباز شریف و آرمی چیف کی موجودگی کے دوران جبار سمیت مجموعی طور پر 4 افراد کو حراست میں لیکر نامعلوم مقام پر منتقل کیا گیا جن میں فاروق، الطاف اور کمبر شامل ہیں جس سے ان کے دوروں کے مقاصد واضح ہو جاتے ہیں۔ جبار سمیت تمام طلباء کو رہا کیا جائے جنہیں دہشت زدہ کرنے کیلئے اٹھایا گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ مجموطی طور پر اس مہینے 43 سے زائد افراد کو جبری طور پر گمشدگی کا نشانہ بنایا گیا جبکہ 6 سے زائد افراد کی مسخ شدہ لاشیں برآمد ہوئیں۔ اس کے علاوہ چاغی میں نام نہاد جرگے کے ہاتھوں ایک خاتون کا قتل، وڈھ میں ڈیتھ اسکواڈز کا فورسز کی سرپرستی میں بھتہ خوری، قتل و غارت گری اور حالیہ دنوں وڈھ کے لوگوں پر قہر برسانا، خضدار میں طلباء پر پولیس فورس کا استعمال، کراچی کے مختلف علاقوں میں آئے دن آپریشنز، کیچ آبسر میں لوگوں کی زندگیوں کو مشکلات میں ڈالنا اور ان دیگر تمام مظالم کا سلسلہ جاری و ساری ہے۔ یہ وہ واقعات ہیں جنہیں رپورٹ کیا گیا ہے جبکہ انگنت ایسے کیسز ہیں جو رپورٹ نہیں ہوتے۔ بلوچستان میں خودکشی کے بڑھتے واقعات بھی پریشان کن ہیں البتہ باز واقعات میں مقامی ڈیتھ اسکواڈز کے اہلکار دباؤ اور بلیک میلنگ کے ذریعے انہیں ایسا کرنے پر مجبور کرتے ہیں۔ پریس کانفرنس کی توسط سے میڈیا کا توجہ بلوچستان میں جاری غیر انسانی حقوق کی جانب لے آنا چاہتے ہیں اور حکومت و متعلہ اداروں سے مطالبہ کرتے ہیں کہ اگر بلوچستان کے مسئلے کا پرامن حل نکالنا ہے تو بلوچستان میں جاری غیر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو روکنا بنیادی شرط ہے۔