رضا جہانگیر اور امداد بجیر کا کاروان ایک منظم شکل میں اپنی منزل کی جانب گامزن ہے۔ چیئرمین درپشان بلوچ 

199

‏بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن آزاد کے مرکزی چیئرمین درپشان بلوچ نے تنظیم کے سابقہ سیکرٹری جنرل رضا جہانگیر اور بی این ایم کے مرکزی رہنماء امداد بجیر کی دسویں برسی پر انہیں خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ رضا جہانگیر اور امداد بجیر پختہ سیاسی رہنماء اور قومی جہدکار تھے انہی کی پختگی، سیاسی بصیرت اور قربانیوں کی بدولت آج بلوچ سیاسی جماعتیں سخت و کھٹن حالات کے باوجود اپنے قومی و نظریاتی اساس کے ساتھ سیاسی عمل میں برسرپیکار ہیں۔ امداد بجیر اور رضا جہانگیر نے 2014 کے انتہائی کھٹن اور مشکل حالات میں بھی سیاسی جدوجہد کو برقرار رکھا اور عوام کے اندر رہتے ہوئے ان کی قومی و فکری تربیت کرتے رہے۔ جن حالات میں انہوں نے سیاسی عمل کو گراؤنڈ میں جاری رکھا اس دوران سینکڑوں کی تعداد میں سیاسی کارکنان نے روپوشی اختیار کی اور بہت سے لوگوں نے جلاوطنی کی زندگی اختیار کی لیکن رضا اور امداد نے زمین چھوڑنے کے بجائے گراؤنڈ میں رہ کر سیاسی جدوجہد کو منظم کرنے کیلئے اپنی توانائیاں خرچ کیں۔ رضا جہانگیر اور امداد بجیر جیسے سیاسی رہنماء بلوچ سیاست کے آئیڈیل کردار ہیں جنہوں نے علمی و فکری بنیادوں پر بلوچستان میں سیاسی شعور و آگاہی پھیلائی اور بلوچ نوجوانوں کو ریاستی قبضے سے آگاہ کیا جس کے پاداش میں ریاست نے انہیں نشانہ بناکر شہید کر دیا۔

‏چیئرمین درپشان بلوچ نے کہا کہ کسی بھی قومی تحریک کو عوام کے اندر اپنی جڑیں مضبوط کرنے کیلئے ایسے سیاسی و فکری رہنماؤں کی ضرورت ہوتی ہے  جو بلا کسی خوف و خطر قومی مقصد کو لیکر عوام تک رسائی حاصل کریں اور اپنے کردار و علمی و فکری بصیرت سے عوام کو ان کی غلامی کا احساس دلائیں۔ بلوچ سیاست میں ایسے عظیم کرداروں کی فہرست بہت لمبی ہے جنہوں نے بلوچستان بھر میں سیاسی سرگرمیاں کرکے عام عوام کو قومی آزادی کی جدوجہد کی اہمیت سے آگاہ کیا اور ریاست کے قبضے و اس کے نقصانات کے حوالے سے ان کی تربیت کی۔ جس کی وجہ سے آج بلوچ فرزند قومی جدوجہد سے آگاہ اور اس میں اپنی شرکت یقینی بنا رہے ہیں۔ بلوچستان کے لوگوں میں اور بلخصوص نوجوانوں میں یہ قومی و فکری شعور رضا جہانگیر اور امداد بجیر  جیسے سیاسی رہنماؤں کی مرہون منت ہے جنہوں نے ذاتی زندگی کو پس پشت ڈال کر قومی ضرورتوں کو مدنظر رکھ  کر فکری اور شعوری بنیادوں پر نوجوانوں کی تربیت کا فریضہ انجام دیا۔ یقینا سیاسی نظریات رکھنا اور عوام کے اندر ان کے پرچار کا حق ہر مہذب معاشرے میں سب کو حاصل ہے لیکن بلوچستان جیسے مقبوضہ علاقے میں جہاں قابض ریاست تشدد اور جبر سے اپنا قبضہ برقرار رکھا ہوا ہے وہاں قومی فکر رکھنے والا ہر نوجوان ریاست کیلئے خطرہ ہوتا ہے۔ رضا جہانگیر کو اس وقت نشانہ بنایا گیا جب وہ تنطیمی سرگرمیوں کی انجام دہی کیلئے کیچ کے دورے پر تھا جب ریاست نے موقع کا فائدہ اٹھا کر شہید امداد بجیر کے گھر پر  حملہ کرتے ہوئے شہید رضا جہانگیر اور ان کے نظریاتی ساتھی امداد بجیر کو شہید کیا۔ گوکہ قدآور شخصیات ہونے کی حیثیت سے ان کی شہادت تنظیم و تحریک کیلئے نقصاندہ رہا ہے لیکن تاریخ گواہ ہے کہ شہادت اور قربانیوں سے کوئی بھی تحریک کمزور نہیں ہوا ہے بلکہ شہادتوں سے تحریکیں نظریاتی طور پر مضبوط ہوتی ہیں۔

‏چیئرمین درپشان بلوچ نے بلوچ نوجوانوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آج ہم اپنے ان ساتھیوں کے قرض دار ہیں جنہوں نے عظیم قومی مقصد کیلئے اپنی زندگیاں قربان کی ہیں۔ بحیثیت بلوچ نوجوان آج ہمیں سوچنا ہوگا کہ ہم قومی تحریک میں کیا کردار ادا کر سکتے ہیں۔ کیونکہ بلوچ قومی تحریک کسی ایک شخص یا مخصوص گروپ کے مفاد کیلئے نہیں بلکہ پورے بلوچ قوم کا مستقبل اس سے جڑا ہوا ہے جس کیلئے ہم سب کو اپنی اپنی قومی زمہ داریوں کا احساس رکھتے ہوئے اپنے زمہ کا کام سرانجام دینا چاہیے۔