جبری گمشدگیوں کے خلاف دو روزہ احتجاجی کیمپ لگایا جائے گا۔ بی وائی سی

136

بلوچ یکجہتی کمیٹی (کراچی) کے ترجمان نے اپنے جاری کردہ بیان میں کہا کہ جبری گمشدگیاں بلاشبہ اذیت کی وہ قسم ہے جس نہ صرف لاپتہ شخص بلکہ اسکے ہمراہ اسکا پورا گھر و اہل و عیال خاندان اذیت میں مبتلا ہوتے ہیں۔

انہوں نے کہاکہ موجودہ تمام تر حالات و واقعات کو مدنظر رکھتے ہوئے دو روزہ احتجاجی کیمپ کے انعقاد کا اعلان کرتے ہیں جس میں بتاریخ 16 اگست بروزِ بدھ اور بتاریخ 17 اگست بروزِ جمعرات دوپہر دو بجے سے شام چھ بجے تک احتجاجی کیمپ کا اعلان کیا جاتا ہے بعد از کیمپ یعنی بروز جمعرات شام 4:30 بجے ایک احتجاجی مظاہرہ بھی کیا جائے گا۔ جس طرح سے موجودہ حالات و واقعات ہیں ان میں کراچی کے بیشتر علاقوں میں سے بلوچ طلباء اور دیگر طبقہ فکر کے لوگوں سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو جبری گمشدگی کا شکار بنایا جا رہا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ آئے روز بلوچ علاقوں میں آپریشن کے نام پر ان کو ذہنی اذیت کا شکار بنایا جا رہا ہے جس کی ہم سخت الفاظ میں مذمت کرتے ہیں۔

ترجمان نے کہاکہ کراچی کے علاقے ہاکس بے سے داد شاہ شاشانی کو ان کے والد و دیگر اہل و عیال کے آنکھوں کے سامنے سے سی۔ٹی۔ڈے نے رات دو بجے ان کو ان کے گھر سے جبری طور پر لاپتہ کیا اور ان کے والد اور دیگر اہل و عیال کو یہ کہا گیا کہ ہم سی ٹی ڈی سے ہیں اور داد صاحب کو تفتیش کے لیے لے جا رہے ہیں۔ داد شاہ کی جبری گمشدگی کے اگلے روز جب ان کے اہلیان متعلقہ پولیس تھانے میں ایف۔آئی۔آر درج کرانے گئے تو ان کی ایف۔آئی۔آر درج نہیں کی گئی اور جواب میں یہ کہا گیا کہ ہم اپنے ہی ایجنسی کے خلاف کوئی ایف ائی۔آر درج نہیں کریں گے۔ سوال یہاں پر یہ ہے کہ کس طرح سے یہ قانون نافذ کرنے والے ادارے اپنے ہی طے شدہ اور اپنے ہی آئین و قوانین کی پاسداری کیسے نہیں کرتے ہیں، اور اگر وہ قانون ائین کے پاسدار ہیں تو تو اس ملک کے قانون کے مطابق اپ کسی کو بھی گرفتار کرنے کے بعد اس کو 24 گھنٹے کے اندر کورٹ میں پیش کرتے ہیں۔

انہوں نے کہاکہ ہمارا مطالبہ یہ ہے کہ اگر داد شاہ نے کسی قسم کا کوئی جرم کیا ہے تو اس کو آئین قانون کے دائرے میں رہ کر ثابت کیا جائے اور اس کے بعد ہم کسی بھی طرح کے سزا کو قابلِ قبول کریں گے۔

انہوں نے کہاکہ اسی طرح سے بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ سے دوسری بار جبری گمشدگی کے شکار فیاض علی کو ایک بار پھر جبری طور گمشدہ کر لیا گیا۔ فیاض علی کی بیگم نرگس فیاض نے کوئٹہ پریس کلب میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے چہرے آپ کیلئے نئے نہیں ہونگے، اس سے قبل بھی میں کئی بار اس کمرے اور اس سے باہر اپنے خاوند کی تصویر اٹھائے آپ لوگوں کے سامنے آتی رہی ہوں۔ میں اور میرا گھر اس کرب سے گذر چکے ہیں اور آخر خوش قسمتی میرے خاوند کی بحفاظت بازیابی کی صورت میں ہمارے گھر کی خوشیاں واپس لوٹ آئی۔
انکا کہنا تھا کہ فیاض علی کو پہلی بار 30 اگست 2021 کو جبری طور پر لاپتہ کیا گیا، اس دوران فیملی نے تمام قانونی تقاضوں کے مطابق ایف آئی آر درج کی، انسانی حقوق کمیشن سے رجوع کیا، ہائی کورٹ سے بھی رجوع کیا اور پریس کانفرنس و سوشل میڈیا کے ذریعے اپنی آواز متعلقہ قوتوں اور اداروں تک پہنچانے کی کوشش کی۔ فیاض علی کو دوسری مرتبہ 12 اگست کو بغیر کسی وارنٹ گرفتار کرکے سیاہ وردی میں ملبوس سرکاری اہلکار تقریباً رات تین بجے گھر میں گھس کر فیاض علی کو دوسری مرتبہ جبراً حراست میں لیکر ایک بار پورے خاندان کی زندگیوں کو ایک اندھیر نگر کی جانب دھکیل دیا گیا۔

ترجمان کا مزید کہنا تھا کہ گزشتہ مہینے کے رپورٹ کے مطابق جولائی 2023 جبری گمشدگیوں کے حوالے سے سال کا بدترین مہینہ رہا ہے اس مہینے 57 افراد کو پاکستانی فورسز نے جبری لاپتہ کیا جبکہ 22 افراد کو جبری گمشدگیوں کے بعد تشدد کرکے رہا کیا گیا ، یہ وضاحت کیے گئے بغیر کہ انھیں کس جرم کے تحت تحویل میں لیا گیا تھا۔

انکا کہنا تھاکہ ملک کے آئین و قانون کی دھجیاں اڑاتے ہوئے مارو اور پھینک دو کی پالیسی کے تحت بلوچستان میں مجموعی طور پر سات افراد کی مسخ شدہ لاشیں ملیں۔ جن میں سے دو ضلع دالبندین ،ایک نوشکی، ایک بارکھان، ایک کیچ اور ایک نامعلوم لاش ضلع گوادر سے ملی۔
رپورٹ میں مزید ڈیرہ بگٹی میں انسانی حقوق کی پامالیوں کی تازہ لہر پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا گیا کہ ضلع ڈیرہ بگٹی گذشتہ مہینے حکومتی اداروں کے جارحانہ کارروائیوں کا محور رہا ہے۔جہاں سب سے زیادہ 15 افراد کو جبری گمشدگی کا نشانہ بنایا گیا جبکہ کئی علاقوں میں ایک ہفتے تک مسلسل جارحیت کے دوران گھروں میں لوٹ مار کی گئی اور آبادیوں پر مارٹر گولے فائر کیے گئے جن کے نتیجے میں گھروں اور شہریوں کے املاک کو نقصان پہنچا۔


ترجمان نے کہا کہ اسی طرح خضدار سے سرگودھا یونیورسٹی کے طالبعلم شمس بلوچ کو لاپتہ کیا گیا۔ ہر طرح سے ممکن کوشش کی جا رہی ہے کہ بلوچ قوم کے بوڑھے، جوان، مرد، عورت، طالب علم، انسانی حقوق کے کارکن و دیگر طبقے سے تعلق رکھنے والے ہر اس شخص کو کسینہ کسی طرح سے ٹارچر کیا جا رہا ہے لیکن کیا جا رہا ہے۔ ہم اس بات پہ اتراتے نہ پھریں کہ میں بھی تو بلوچ ہوں میں کیوں لاپتہ نہیں ہوا یا میرے ساتھ یہ سب کیوں نہیں ہوا اس ملک میں بلوچ ہونا ہی جرم ہے تو ہمیں یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ اس ملک میں ٹارچر کرنے کے تنگ کرنے کے طریقے الگ ہو سکتے ہیں لیکن ایسا بالکل نہیں ہو سکتا کہ کوئی بلوچ ہو اور وہ کسی طرح سے ٹارچر نہ ہو، یہاں ہر گراؤنڈ کا کھیل اس گراؤنڈ کے ماحول کو دیکھ کر کھیلنے کا ہنر جاری ہے۔ جس کی واضع مثال ہمیں حال ہی ملی جہاں حوران بلوچ سور ان می اہلخانہ کو دھمکیاں دی گئی، یہ ان کے ساتھ پہلی مرتبہ نہیں ہوا بلکہ اس طرح کی ذہنی اذیت و دھمکانے کا سلسہ ان کے ساتھ چند سال پہلے کراچی میں بھی ہوا تھا۔

ترجمان نے اپنے بیان کے آخر میں کہا کہ حکومت اور ریاستی ادارے ہوش کے ناخن لیں اور جبری گمشدگی کو ختم کرنے میں اپنا مثبت کردار ادا کریں نہ کہ ان کو بڑھانے کے لیے ترکیبیں اور نئے ٹیکٹس کا استعمال کریں آئین و قانون کی پاسداری کرتے ہوئے انسانی حقوق کے کارکنوں کو تحفظ دیا جائے نہ کہ ان کو ڈرا دھمکا کر خاموش کرنے کی کوشش کی جائے وگرنہ یہ سائنس کا اصول ہے کہ آپ جس چیز کو جتنا دبائیں گے وہ اتنی اتنی زیادہ اچھلے گی اور تیزی سے اچھلے گی تو ہم اس اصول کے ذریعے تمام حکومتی اداروں اور ریاستی اداروں سے یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ ہوش کے ناخن لیں وگرنہ ہم آئینی وقانونی طریقے سے احتجاجوں و دھرنوں کا حق رکھتے ہیں۔