تعلیمی اداروں میں ہراسانی کا معاملہ بطور بلوچ اور انسانی معاشرہ ہم سب کےلیے شرمناک ہے۔ بساک

232

بلوچ اسٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی کے رہنماؤں نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہاکہ غازی یونیورسٹی میں کافی عرصے سے ہراسمنت کے واقعات اور پچھلے تین مہینوں سے جنسی ہراسانی کا کیس زیرگردش تھا جو کہ پچھلے دنوں کھل کر سب کے سامنے آچکی ہے۔ فزکس ڈیپارٹمنٹ کے ایک طالبہ ثناء ارشاد جنہوں نے گزشتہ روز ایک وڈیو بیان جاری کی ان کے مطابق فزکس ڈیپارٹمنٹ کے ہیڈ ڈاکٹر ظفر وزیر اور پروفیسر خالد خٹک کی جانب سے انہیں نشہ آور ادویات دے کر جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا۔ اس کے بعد کئی دنوں تک دونوں پروفیسرز انہیں باقائدہ بلیک میل کرکے ہراسمنٹ کا نشانہ بناتے رہے۔ متاثرہ طالبہ کی جانب سے یونیورسٹی انتظامیہ کو مئی کے ہی مہینے ایک درخواست دی گئی اور کیس میڈیا میں بھی رپورٹ ہوئی تھی لیکن انتظامیہ کی جانب سے ایک کمیٹی کے زریعے معاملے کو دبانے کی کوشش کی گئی اور پھر بغیر کسی قانونی کاروائی کے ملوث پروفیسرز کو معطل بھی کیا گیا تاکہ معاملہ کچھ وقت کےلیے دبایا جاسکے۔ لیکن تین ماہ گزرنے کے باجود متعلقہ انکوائری کمیٹی کی جا نب سے کسی بھی قسم کی کوئی پیش رفت نہیں ہوئی اور مجبواً متاثرہ طالبہ کومیڈیا پر آکر انصاف مانگنی پڑی۔ بطور معاشرہ ہمارے لیے ایک المیہ ہے کہ ہمارے تعلیمی اداروں میں اساتذہ ہی اپنے طالبات کو جنسی ہراسگی کا نشانہ بنا رہے ہیں اور پھر متعلقہ ادارے ان بدکرداروں کی پشت پناہی کررہے ہیں۔

انہوں نے کہاکہ یہاں پر ہم واضح کرنا چاہتے ہیں کہ غازی یونیورسٹی میں جنسی ہراسگی کا یہ پہلا واقع نہیں ہے۔ غازی یونیورسٹی ڈیرہ غازیخان کا واحد تعلیمی ادارہ ہے جو کہ ہزاروں طالبعلموں کےلیے درسگاہ کی حیثیت رکھتی ہے۔ ڈیرہ غازیخان جو کہ بلوچ اکثریتی آبادی پر مشتعمل خطہ ہے۔ مالی لحاظ سے کمزور اور تعلیمی حوالے سے پسماندہ اس خطے کے لوگ کم ہی اپنے بچے اور بچیوں کو اعلیٰ تعلیم دلواتے ہیں۔ ستر سال گزرنے کے بعد خدا خدا کرکے ایک غازی یونیورسٹی اس علاقے کے لوگوں کو ملی تو عوام نے اس ادارے کو اپنے لیے نعمت گردانا اور بچیوں کو اعلی تعلیم دینے کا ایک بڑا سلسلہ شروع ہوا۔ ڈیرہ غازیخان کے طالبعلم بالخصوص طالبات کےلیے غازی یونیورسٹی امید کی کرن بھر کر ابھری۔لیکن بدقسمتی کے ساتھ یونیورسٹی تو بنائی گئی لیکن یونیورسٹی میں جو انتظامی عملہ اور اساتذہ بھرتی کیے گئے وہ بلکل مقامی لوگوں کے میرٹ کے برعکس اور مقامی ثقافت سے نابلد تھے۔ یونیورسٹی کے مقامی اساتذہ کو ایک منظم سازش کے تحت یونیورسٹی سے بے دخل کرکے کالجوں میں ٹرانسفر کیا گیا، نئی تعیناتیاں میرٹ کے برعکس کرپشن کے ذریعے اپر پنجاب اور دوسرے ضلعوں سے کیے گئے۔ اس سارے عمل میں ایک درآمدی ٹولہ مقامی روایات سے نابلد یونیورسٹی پر مسلظ کیا گیا جنہوں نے اس درسگاہ کو باقائدہ ہراسمنٹ کا اڈہ بنایا۔ مقامی طالبات کے مجبوریوں اور روایات سے فائدہ اٹھا کر اپنے حوس کو تسکین دینے کےلیے منظم ماحول بناتے رہے اور اب تک سینکروں طالبات انہی ذہنیت اور ہراسانی کا شکار بنائے جا چکے ہیں۔

انہوں نے مزید کہاکہ ہم یہاں پر واضح کرنا چاہتے ہیں کہ غازی یونیورسٹی میں ہراسمنٹ کا یہ واقعہ پہلا نہیں اور نہ ہی ان دو پروفیسرز تک محدود ہے۔ اس سے پہلے باٹنی ڈیپارٹمنٹ کے ایک پروفیسر کا اسکینڈل سامنے آیا جسے انتظامیہ نے دبائے رکھا اس کے بعد یونیورسٹی کے سیکورٹی انچارج کو باقائدہ یونیورسٹی کے اندر ہراسمنٹ کرتے ہوئے رنگے ہاتھوں پکڑا گیا لیکن یونیورسٹی نے سیکورٹی انچارج کا تبادلہ کرکے معاملے کو رفع دفع کیا۔ اس کے علاوہ روزانہ کی بنیاد پر ایک عام کلرک سے لے کر پروفیسرز اور انتظامی عہدیداران تک طالبات کو مختلف تعلیمی ضروریات کی بنیاد پر بلیک میل کرکے ہراسمنٹ کا شکار بنانا ایک معمول بن چکی ہے۔ عام طالبعلموں ، صحافیوں اور ہم نے بطور طلباء تنظیم باربار انتظامیہ کو ہراسمنٹ کے معاملات پر گوشگوار کرنا چاہا اور عوام کو خبردار کرتے رہے لیکن یونیورسٹی انتظامیہ باقائدہ ان آوازوں کو سازش سے تشبیہ دے کر ہراسمنٹ کےواقعات کی پشت پناہی کرتے رہے جو کہ آج گھمبیر ہو کر ہمارے سامنے آچکی ہے۔ ہمارے لیے نہایت شرم کی بات ہے کہ ان دونوں پروفیسرز کا ڈیرہ غازیخان سے تعلق نہیں لیکن وہ ہمارے ہی تعلیمی ادارے میں ڈیرہ غازیخان کی بیٹی کے ساتھ اپنے حوس پورے کرتے رہے۔ بطور بلوچ اور انسانی معاشرہ ہم سب کےلیے شرمناک ہے۔

بساک کے رہنماؤں نے کہاکہ اس سے پہلے بھی کئی بار ہم انتظامیہ اور حکومت سے بارہا درخواست کرتے رہے کہ ڈیرہ غازیخان کی واحد یونیورسٹی میں جاری ہراسمنٹ اور انتظامی بے ضابطگیوں پر باریک بینی سے تحقیق کی جائے لیکن درآمدی ٹولہ اپنے آپ کو زیادہ طاقتور بنا چکی ہے کہ آج ڈیرہ غازیخان کے عوام اس انتظامیہ کے آگے بے بس ہے۔ ڈیرہ غازیخان جو کہ بلوچ قبائل پر مشتعمل علاقہ ہے۔ متاثرہ طالبہ کا تعلق بھی بلوچ قوم کے زیلی قبائل ملغانی سے ہے جو کہ بحثیت بلوچ ہمارے لیے ازیت ناک ہے۔ ہم یہاں پر متاثرہ طالبہ کے ساتھ اظہار ہمددری کرتے ہیں اور طالبہ سے بحثیت بلوچ طلباء تنظیم معافی مانگتے ہیں کہ ہمارے تعلیمی اداروں میں ہماری بہن بیٹیوں کے ساتھ ایسے واقعات پیش آرہے ہیں اور ہم بے بس و لاچار تماشا دیکھ رہے ہیں۔ ڈیرہ غازیخان کے غیور بلوچ عوام سے اپیل کرتے ہیں کہ یہ کسی فرد کا مسلہ نہیں بلکہ ہمارا اجتماعی مسلہ ہے۔آج ان درندوں کا شکار ہماری بہن ثناء ارشاد ہوئی ہے کل ہمارے دوسرے بہن بیٹیوں تک بھی یہ درندے پہنچ سکتے ہیں۔ لہٰذہ اپنے بچیوں کو پرامن اور محفوظ تعلیمی ماحول فراہم کرنے کی خاطر اجتماعی آواز بلند کریں تاکہ یونیورسٹی کو ان جیسے تمام کردادروں سے صاف کیا جاسکے۔

انکا کہنا تھاکہ اس پریس کانفرنس کے توسط سے بلوچ اسٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی اور غازین اسٹوڈنٹس الائینس کی جانب سے انتظامیہ اور حکومت وقت سے درج زیل مطالبات کرتے ہیں، متاثرہ طالبہ ثناء ارشاد کو فلفور انصاف فراہم کیا جائے اور ملوث ملزمان جن میں خالد خٹک، ڈاکٹر ظفر وزیر کو فلفور گرفتار کرکے شامل تفتیش کیا جائے۔

جبکہ ملوث ملزمان سے تفتیش کرکے دوسرے ملوث کرداروں کا کا تعاقب کیا جائے جو کہ اس کالے دھندے میں ملوث ہیں اور غازی یونیورسٹی کے موجودہ ہراسمنٹ سیل کو فلفور معطل کیا جائے اور از سر نو نئی ہراسمنٹ سیل قابل اعتما د اساتذہ کی سربراہی میں بنائی جائے اور طالبعلموں کی بھی نمائندگئ شامل کی جائے،
۵۔ غازی یونیورسٹی میں ہراسمنٹ کے خلاف ٓگاہی مہم چلائی جائے اور ہراسمنٹ کمیٹیاں تشکیل دی جائیں۔ مزید غازی یونیورسٹی میں طالبعلموں کےلیے گھٹن زدہ ماھول کو ختم کرکے کیمپس کے اندر آزاد فضا قائیم کی جائے تاکہ طالبعلم خوف کی فضا سے نکل سکیں اور غازی یونیورسٹی میں انتظامی بے ضابطگیوں جن میں پراجیکٹس پر کرپشن، میرٹ کے بر عکس بھرتیوں کے خلاف شفاف تحقیقات کی جائیں۔

آخر میں انہوں نے کہا کہ اس پریس کانفرنس کے توسط سے بطور بلوچ طلباء تنظیم ہم اس واقعے پر ایک سخت احتجاجی لائیحہ عمل کا اعلان جلد کریں گے۔ اور ڈیرہ غازیخان کے دوسرے طلباء تنظیموں اور سول سوسائٹی سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ بھی اس غیر انسانی اور غیر اخلاقی مسئلے پر آگے آئیں۔ ہم انتظامیہ اور حکومت وقت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ متاثرہ طالبہ کو جلد انصاف کی فراہمی یقنی بنایا جائے اور ہمارے مطالبات کو سنجیدگی سے لیا جائے بصورت دیگر ہم پر امن احتجاج کے حق کو محفوظ رکھتے ہیں۔