بلوچ کو مذہب کا درس فسادی ملا نہ دیں
تحریر: اسد بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
عبدالرؤف کی شھادت کے بعد عام بلوچ کے ساتھ ساتھ علما کرام کی ایک اکثریت شدت پسندی کی حامی گروہ سے واضح لاتعلق دکھ رہی، اکا دکا جو چند ملا بلوچ دوست بھی رہنا چاہتے ہیں اور شرپسندی کی حمایت بھی کررہے ہیں انہیں سمجھ لینا چاہیے کہ نہ اسلام شرپسندی کے حق میں ہے نا بلوچ کوڈ آف کنڈیکٹ میں دین کے نام پر فساد کی کوئی گنجائش ہے۔
ایک محب شخصیت کے چند ٹیکسٹ مسج دیکھے جس میں یہ الزام لگایا گیا تھا کہ عبدالرؤف کی شھادت کے بعد کچھ لوگ دانستہ بلوچ سماج کو سیکولر ازم اور ملاازم کے نام پر تقسیم کررہے ہیں۔
مجھے نہیں معلوم یہ سازشی لوگ کون ہوسکتے ہیں مگر یہ سمجھنا مشکل نہیں کہ بلوچ سماج کو ملاازم کے نام پر کون تقسیم کی سازش کررہا ہے۔
چند سالوں میں ہر طرح کی مذہبی منافرت اور پرتشدد سوچ سے بیگانہ بلوچ سماج کو پرتشدد مذہبی تنفر سے پراگندہ بنانے کی کوشش یا سازش کس نے کی اور کیوں کی ایک عام بلوچ واقف ہے۔ آج اگر چند فسادی ملاؤں پر بات کرنے کو ہمارے دوست، علما یا مذہب کے خلاف سیکولر سوچ سمجھتے ہیں یا کوئی گہری ساَش یہ، ان کا مسلہ ہے بلوچ سماج اور بلوچ نوجوان کا مسلہ یہ کبھی تھا نا ہے۔
ہم صدیوں سے محبت بھرے پرامن سماج کے باشندے ہیں ہمیں ایک اقلیتی گروہ غیروں کی سازش میں مذہب کے نام پر تقسیم کرنے کی اگر کوشش کرے گی تو اس کا ردعمل آئے گا۔ اسلام سلامتی ہے اسے فساد سے جوڑنا دراصل اسلام کی توہین ہے۔ اسی فلسفہ کے تحت ہم نے مذہب کو صدیوں سے احترام دیا آج بھی دیتے ہیں، بلوچ سماجی ہیت اور اسلام کے تعلیمات میں کبھی تضاد تھا ہی نہیں اب بزور بندوق بلوچ کو غیر کی خواہش پر پکا سچا مسلمان بنانے کی جتن کیسی۔
کیا سچ کیا جھوٹ روایت ہے کہ خلیفہ دوئم حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا بھیجا تبلیغی وفد مکران آیا اور رات بلوچ سردار کے ہاں مہمان بن کر گزاری۔
سردار نے دیار غیر سے اجنبی مہمانوں کی تواضع اور خاطر مدارت میں کوئی کسر نہیں چھوڑا۔
صبح ہونے پر چائے وغیرہ سے فارغ ہوکر اجنبی وفد نے علاقے کی معتبر شخصیت کا پوچھا انہیں بتایا گیا کہ آپ رات سے بلوچ سردار کے مہمان ہیں۔ وفد کی خواہش پر اسے سردار سے ملاقات کے لیے قلعہ یا اس دور کا کوئی جگہ جہاں سردار بیٹھا کرتے پہنچایا گیا۔
وفد نے سردار سے کہاکہ ھم دیار عرب سے خلیفہ عمر کے حکم پر تبلیغ دین کے لیے آئے ہیں سردار نے اس دین کے متعلق استفسار کیا وفد نے کہاکہ ہمارا دین اسلام اور اس کی تعلیمات میں مہمان نوازی، جھوٹ سے ممانعت، عزت و غیرت وغیرہ شامل ہیں جبکہ قلمہ طیبہ اور پھر پنجگانہ نماز اس دین کی بنیاد ہیں۔
سردار بولا مہمان نوازی کا مشاہدہ آپ کرچکے جو ہماری روایت ہے کوئی کسر رہ گئی تو معذرت، جھوٹ، ھم اس سے نا آشنا ہیں، عزت اور غیرت ہمارے پیدائشی ورثہ ہے ان کے لیے بلوچ کو کسی دین کی ضرورت نہیں ہے البتہ باقی بچے قلمہ اور نماز وہ ہم نہیں کررہے، بتائیں اگر ھم یہ نہ کریں تو کیا ہوگا۔ وفد نے کہاکہ خلیفہ کی طرف سے انکار پر جھاد و قتال کا حکم ہے۔
سردار نے کہاکہ یہ جو آپ کا نیا دین ہے وہ صدیوں سے ہمارے اجداد کی ثقافت ہے۔ رہے نماز اور کلمہ ہم ان دو کے لیے اجنبی مہمانوں سے لڑنا گوارا نہیں کرتے۔ جائیے خلیفہ کو بتا دیجئے ہم بلوچ مسلمان ہیں کلمہ لاتے ہیں اور نماز پڑھیں گے۔
تو عرض ہے کہ ہم بلوچ سالوں سے پرامن مسلمان ہیں، کسی فساد کے بغیر ہم اسلام لائے اور اپنی زمین پر اسلام یا دین کے نام سے فساد کے حق میں نہیں نا قتال چاہتے ہیں۔
مولوی عرض محمد سے مولانا عبدالحق بلوچ تک بلوچ اپنے معزز علما کرام کا احترام کرتے ہیں۔ موجودہ وقت میں خالد ولید سیفی صاحب سے زیادہ کوئی مولوی بلوچ سماج کی حقیقت کیا جان سکتی ہے اس لیے جب ھم فسادی ملا کا گلہ کرتے ہیں تو سیفی صاحب دل پہ نہ لیں وہ اسی زمین کا فرزند ہے اس زمین کو مذہبی فساد سے پاک کرانا کسی اور سے زیادہ ان ہی کی زمہ داری ہے گلہ بس یہ ہے کہ وہ یہ زمہ داری ادا نہیں کررہے۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔