بلوچ طلباء کو مسلسل جبری گمشدگیوں کا نشانہ بنایا جا رہا ہے، جو لمحہ فکریہ ہے۔کراچی مظاہرہ

209

جبری گمشدگیوں کے خلاف کراچی پریس کلب کے سامنے بلوچ یکجہتی کمیٹی کراچی کی جانب سے قائم کردہ دو روزہ احتجاجی کیمپ آج دوسرے روز اختتام پزیر ہوا۔

بلوچ یکجہتی کمیٹی کراچی کے رہنماؤں، کراچی سے جبری لاپتہ داد شاہ بلوچ، عبدالحميد زہری سمیت بلوچ لاپتہ افراد کے لواحقین اور دیگر سیاسی اور سماجی کارکنان نے شرکت کی اور لواحقین کے ساتھ اظہار یکجہتی کی۔

بلوچ یکجہتی کمیٹی کراچی کے رہنماؤں کا کہنا تھا کہ ہمارے احتجاجی پروگرام اور مظاہرے کا مقصد جبری گمشدگیوں میں حالیہ دنوں شدت کی روک تھام ہے ، بلوچ طلباء کو مسلسل جبری گمشدگیوں کا نشانہ بنایا جا رہا ہے جو لمحہ فکریہ ہے۔

احتجاجی مظاہرے میں بلوچ لاپتہ افراد کے لواحقین سے اظہار یکجہتی کرنے کراچی کے سیاسی اور سماجی کارکنان نے بھی شرکت کی۔

ان کا کہنا تھا تمام بلوچ لاپتہ افراد کو منظر عام پر لایا جائے اور انکے لواحقین کو درد اور اذیت سے نجات دلائی جائے، انکے پیاروں کی انکو خیر خبر دی جائے۔

احتجاجی مظاہرے میں شریک داد شاہ بلوچ کی بہن فوزیہ بلوچ کا کہنا تھا کہ انکے بھائی کو رات کے اندھیرے میں بلا وجہ سی ٹی ڈی نے انکے والدین کے سامنے غیر قانونی حراست میں لینے کے بعد لاپتہ کردیا ، ان کو منظر عام پر لایا جائے کیونکہ بھائی کی جبری گمشدگی سے میرے والدین نڈھال ہیں انکی زندگیاں اجیرن کر دی گئی ہیں، وہ پوچھتے رہتے ہیں کہ دادشاہ کب آئے گا، میں ان کو کیا جو اب دوں؟

مظاہرین کا کہنا تھا ایک بار پھر بلوچوں کی جبری گمشدگیوں میں شدت لائی گئی ہے ابتک مختلف علاقوں سے درجنوں افراد جبری گمشدگی کا نشانہ بنے ہیں حالیہ چند روز میں خضدار، پنجگور، کیچ، کوئٹہ، کراچی کوئی بھی ایسا بلوچ علاقہ نہیں جہاں سے ایک شخص جبری گمشدگی کا نشانہ نا بنایا گیا ہو-

انکا کہنا تھا اگست کے دوسرے ہفتے پاکستانی سیکورٹی فورسز، سی ٹی ڈی، پولیس اور خفیہ اداروں نے مختلف علاقوں سے بیس سے زائد افراد کو ماورائے آئین و قانون زبردستی اغواء کرکے لاپتہ کرچکے ہیں ان لاپتہ افراد میں زیادہ تر وہ ہیں جو طالب علم ہیں-

مظاہرین کا کہنا تھا جبری گمشدگیوں کے ساتھ ساتھ بلوچستان میں خواتین کی غیر قانونی گرفتاری، مختلف علاقوں میں فورسز کی جانب سے گھروں کا گھیراؤ کرنا اور تعلیمی اداروں میں حراسگی کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے، بلوچ یکجہتی کمیٹی ریاست کی کیجانب سے ان غیر منصافانہ عمل کی مذمت کرتی ہے اور اسکے خلاف ہمیشہ احتجاج کرینگے-

لاپتہ داد شاہ بلوچ کے ہمشیرہ نے کہا اگر انکے بھائی پر کوئی الزام عائد ہے تو ثبوتوں کے ساتھ عدالتوں میں پیش کریں، بلوچستان میں جو سالوں سے چلا آرہا ہے میری جیسی بہنیں سڑکوں پر احتجاج کررہی ہیں تو مزید ایک بہن کا اضافہ ہوگا اور ہم اپنے پیاروں کی بازیابی کے لئے احتجاج کرتے رہینگے جب تک انھیں بازیاب نہیں کیا جاتا-

احتجاج کے شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے بلوچ یکجہتی کمیٹی کراچی کے آرگنائزر آمنہ بلوچ نے کہا کہ بلوچستان میں حالیہ جبری گمشدگیوں کے واقعات ہوں یا دیگر البتہ اگست اور دسمبر دو ایسے مہینے ہیں جب ان جبری گمشدگیوں میں شدت لائی جاتی ہے ایک اگست میں پاکستان وجود آیا تھا اور دسمبر قائد اعظم کی پیدائش ہے اور دونوں مواقع پر بلوچ نوجوان جبری گمشدگی کا نشانہ بنتے ہیں-

آمنہ بلوچ نے کہا اگست میں پورا پاکستان آزادی کا دن مناتا ہے لیکن پاکستان کے وجود سے ابتک بلوچ خود اذیت کا سامنا کررہے ہیں جب تک ہمارے تمام لاپتہ افراد بازیاب نہیں ہوتے ہم پاکستان زندہ باد کا نعرہ نہیں لگا سکتے-

کراچی احتجاج کے مقررین نے آج رات داد شاہ بلوچ سمیت جبری گمشدگیوں کے خلاف سماجی رابطوں کی ویب سائٹ پر کیمپئن چلانے کا اعلان کیا ہے جب کہ شرکاہ سے کیمپئن میں شرکت کی اپیل کرتے ہوئے اپنے دو روزہ احتجاجی کیمپ کا اختتام کردیا ہے-