بلوچستان کو ترقی کے نام پر نوآبادیاتی طرز پر لوٹا جا رہا ہے۔ این ڈی پی

158

نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی کے مرکزی ترجمان نے اپنے بیان میں کہا کہ بلوچستان کے مفلوک الحال عوام دو وقت کی روٹی کے لئے پریشان ہیں، جہاں تعلیم و صحت جیسی بنیادی سہولتوں سے بھی بلوچ قوم سمیت دیگر محکوم اقوام کو محروم رکھا گیا ہے۔ بلوچستان کے وسائل کی لوٹ مار ازل سے شروع تھا لیکن اب اس میں کافی تیزی لائی جا چکی ہے۔ بلوچستان سے نکلنے والے سونے، تانبے، گیس ، کرومائیٹ نے پنجاب کے صنعتی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی جیسی حیثیت حاصل کر لی ہے، جبکہ بلوچستان کے لئے بے حسی کا یہ عالم ہے کہ گزشتہ ایک سال سے پنجرہ پل کی مرمت ان سے نہ ہو سکا ہے، پچھلے سال سیلاب کے تباہ کاریوں کے بعد حکومت پاکستان کو اقوام متحدہ سمیت ورلڈ بینک اور عالمی مالیاتی بینک سے بھی عربوں ڈالر سیلاب متاثرین کے بحالی کے لئے مختص کر کے ادا کر دیئے گئے تھے لیکن حکمران جماعتوں نے آپسی گٹھ جوڑ کر کے تمام فنڈز کو کرپشن، سیاسی جوڑ توڑ اور بالادست قوتوں کے مخصوص ترقی یافتہ پروجیکٹ میں استعمال کیا گیا۔

ترجمان نے مزید کہا کہ ترقی کے دعوےدار نوآبادیاتی حکمران راگ الاپتے رہتے ہیں کہ بلوچستان کے عوام کو روزگار اور ان کے حقوق فراہم کر کے انہیں دیگر اقوام کے برابر لایا جائےگا مگر در حقیقت نوآبادیاتی پالیسیوں کو دوام بخشنے کے لیے بلوچ قوم کے تاریخی ورثوں،روایت، ثقافت و زبان کو مسخ کرنے کے لئے اوچے ہتھکنڈے استعمال کر رہے ہیں۔ آبادیاتی اسمبلی میں گوادر انٹرنیشنل ائیرپورٹ کا نام ” رانا فیروزخان نون” کے نام سے منسوب کرنا نوآبادیاتی پالیسیوں کا تسلسل ہے۔

ترجمان نے مزید کہا کہ بلوچ سیاسی اکابرین ہر دور میں یہ باور کراتے تھے کہ بلوچستان کو بطور نوآبادی ترقی کے نام پر لوٹا جا رہا ہے اور آج ہم اس لوٹ مار کو اپنے آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں کہ کس طرح بلوچ کے سر زمین کو بالادست حکمران نوآبادیاتی پالیسیوں کے تحت جبر و تشدد کے ذریعے انہیں ان کے آبائی زمینوں سے بے دخل کر رہے ہیں۔آج چئیرمین سینیٹ صادق سنجرانی جیسے کردار بلوچ کے معدنی دولت کو بیچنے کے لئے حکمران اور بین الاقوامی کمپنیوں کے لئے “ٹاؤٹ” کا کردار ادا کر رہے ہیں.

ترجمان نے بیان کے آخر میں کہا کہ نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی استحصالی پروجیکٹ اور نوآبادیاتی پالیسیوں کے خلاف جدوجہد کو جاری رکھے گی۔