بلوچستان میں مذہبی انتہا پسندی کا بیج -ٹی بی پی اداریہ

322

بلوچستان میں مذہبی انتہا پسندی کا بیج

ٹی بی پی اداریہ

پاکستان کے مقتدر اداروں نے بلوچ قومی آزادی کی تحریک کو ختم کرنے کے لئے مبینہ طور پر بلوچستان میں کثیر الجہتی پالیسیاں مرتب کی ہیں، جن میں مذہبی انتہا پسندوں کو بلوچ سماج میں منظم کرکے بلوچ تحریک کا راستہ روکنے کی کوشش شامل ہے۔

بلوچ سماج تاریخی حوالے سے سیکولر مزاج کا حامل ہے لیکن دو دہائیوں سے بلوچستان میں مذہبی انتہا پسندی کو وسیع پیمانے پر پھیلانے کی منظم شکل میں کوششیں جاری ہیں۔ بلوچستان میں مسلسل ایسے واقعات رونما ہورہے ہیں جس سے مختلف مذاہب کے درمیان رواداری پر قائم بلوچ سماج کو مذہبی انتہا پسندی کی جانب دھکیلا جارہا ہے۔

بلوچستان کا مکران ڈویژن اس وقت بلوچ انسرجنسی سے سخت متاثر ہے اور بلوچ انسرجنسی کے حمایتی طبقے ؤ پروگریسو اداروں کو تسلسل سے مذہبی انتہا پسند نشانہ بنا رہے ہیں۔ پنجگور میں بچیوں کے اسکول جلائے گئے، موسیقی کے تقریب موخر کرائے گئے، گودار میں اوسس اسکول کے پرنسپل سر زاہد آسکانی قتل کردیا گیا، تربت کے بلوچ ادیبوں کو قتل کی دھمکیاں دی گئی ہیں اور حالیہ دنوں تربت میں عطا شاد ڈگری کالج کے طالب علم ؤ بولان اسکول میں استاد عبدالروف بلوچ کو توہین مذہب کے نام پر مقتدر حلقوں کے حمایتی مذہبی انتہا پسندی نے قتل کردیاہے۔

بلوچ تحریک آزادی سے وابستہ ادارے اور نیشنلسٹ پارٹیاں مسلسل الزام لگا رہے ہیں کہ پاکستان فوج کی سرپرستی میں بلوچستان میں کشمیر جہاد سے وابستہ جہادیوں کو منظم کرکے بلوچستان میں بسایا جارہا ہے تاکہ بلوچ سماج کو مذہبی انتہا پسندی کی جانب دکھیلا جاسکے اور حالیہ تربت واقعے کو نیشنلسٹ جماعتیں شاہ میر عزیز سے جوڑ رہے ہیں جس پر مذہب کے نام پر پہلے بھی قتل کے الزامات لگتے رہے ہیں۔

بلوچستان میں قومی سیاست پر غیر اعلانیہ پابندی ہے اور پاکستان کے مقتدر اداروں نے مذہب کے نام پر سیاست کرنے والوں کو کھلی چھوٹ دی ہے۔ سیاسی اداروں اور جماعتوں کو بلوچستان میں مذہبی انتہا پسندی کو روکنے اور مذہبی رواداری کو برقرار رکھنے کے لئے اقدامات اٹھانے ہونگے، اگر بلوچستان میں مذہبی انتہا پسندوں کو روکنے کے لئے سیاسی قوتیں ناکام ہوئے تو بلوچ سماج کو ناقابل تلافی نقصان ہوگا۔