بلوچستان میں جبری گمشدگیوں، گھروں کی مسماری اور آپریشنز کو بند کیا جائے – نذیر بلوچ

222

بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے سابق مرکزی چیئرمین نذیر بلوچ، ایڈووکیٹ امین مگسی نے کہا ہے کہ بلوچستان کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں ، انصافیوں اور محرومیوں کے ازالے ، مسائل کے حل کے لئے نوجوانوں کو سیاسی طور پر فعال اور متحرک بنانے کے لئے کردار ادا کرنا ہوگا تاکہ ایک توانا آواز بنکر آگاہی مہم و سیاسی کارکنوں کو یکجا کرنے کا باقاعدہ ابتداءہوسکے۔ اس لئے بھر پور طریقے سے مہم چلائی جائے گی ۔

ان خیالات کا اظہار انہوں نے ہفتہ کو کوئٹہ پریس کلب میں اپنے دیگر ساتھیوں بی ایس او کے سابق وائس چیئرمین خالد بلوچ، ایڈووکیٹ صدام بلوچ ،میران کمال بلوچ، بی ایس او کے سابق مرکزی کمیٹی کے اراکین سلیم بلوچ، اقبال بلوچ، پرویز بلوچ، عتیق بلوچ، امیر ثاقی بلوچ، ظاہر بلوچ کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے کیا۔

انہوں نے کہا کہ صوبے میں قدرتی ذخائر کی دریافت ہے لیکن صوبے کے باسی آج بھی زندگی کی بنیادی سہولیات سے محروم ہیں جس طرح سامراجی طاقتوں اور اسلام آباد کی مجموعی نا انصافی پالیسی اور سیاسی اثر و رسوخ صوبے کے حالات میں ایک فریق کے طور پر موجودگی پر شدید اعتراض غم و غصہ پایا جاتا ہے لوگوں پر دروازے بند کرکے بلوچ نسل کشی اور سیاسی لوگوں کا راستہ روک کر حقیقی لوگوں کی بجائے من پسند لوگوں کو مسلط کیا جاتا ہے جس کی واضح مثال بلوچستان کی حالیہ مردم شماری میں 70 لاکھ آبادی کم کی گئی اسی طرح 2017ءکی متنازعہ مردم شماری پر بھی اعتراضات کئے گئے اور 10 سال قبل 2023 میں مردم شماری جسکو نام نہاد ڈیجیٹل سینسز کا نام دیا گیا حالانکہ سوشل میڈیا پر باقاعدہ بلوچستان کی 2 کروڑ سے زائد آبادی ظاہر کی گئی اور بعد میں آبادی کم کردی گئی۔

ان کا کہنا تھا کہ قلات ڈویژن کے 34 سو بلاکس کے نتائج کو صرف ضلع خضدار کے 42 بلاکس کی بنیاد پر تبدیل کیا گیا، اسی طرح مکران، رخشاں، سمیت تمام ڈویژنز پر یہی فارمولہ استعمال کیا گیا۔ان مسائل پر سیاسی جماعتوں کی خاموشی باعث تشویش ہے اور وزیرا علیٰ نے بھی اس مسئلے پر مکمل خاموشی اختیار کرتے ہوئے دستخط کئے اور حکومت نے پنجاب کے مفادات کا تحفظ کیا جبکہ صوبائی حکومت کو بدنامی ہی ملی ہے اور بلوچستان کو وسائل کی تقسیم میں محروم رکھا گیا ہے مردم شماری ریکوڈک سمیت دیگر امور پر ربڑ اسٹیمپ کا کام کیا گیا ہے صوبے میں انتظامی بحران کی وجہ سے مہنگائی، بے روزگاری بڑھ رہی ہے ۔

انہوں نے تربت میں نوجوان طالب علم اور ٹیچر کے قتل کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ ملزمان کو گرفتار کیا جائے اور تعلیمی اداروں میں حصول علم پر پابندی جبری گمشدگیوں، گھروں کی مسماری اور آپریشنز کو بند کیا جائے اور طالبات کو حراساں کرنے کی مذمت کرتے ہیں اور حکومت کی جانب سے ریکوڈک معاہدے کے حوالے سے جو مبہم چیزیں ہیں اس پر وفاق کی وکالت کررہی ہے جو درست عمل نہیں تعلیمی اداروں میں ہراسگی کی وجہ سے نجی تعلیمی اداروں میں تعلیم کے حصول کے لئے جارہے ہیں اور پاک چائنا گوادر یونیورسٹی گوادر کی بجائے پنجاب میں بنانے کی مذمت کرتے ہیں بلوچستان کے ساتھ روا رکھا جانے والا سلوک درست نہیں گوادر ایئر پورٹ کو گوادر کے کسی سیاسی و علمی شخصیت کے نام سے منسوب کیا جائے۔ آج عالمی سطح پر انٹرنیشنل یوتھ ڈے منایا جارہاہے جسکا مقصد نوجوانوں کو علمی،سیاسی،سماجی، انسانی حقوق اور معاشرتی بنیاد پر متحرک کرکے سوسائٹی کی بنیاد کو ٹھیک اور معاشرے میں پنپنے والے تضادات کو ختم کرکے ترقی کی طرف سفر کو آسان وسہل بنا کر بہتری کی جانب گامزن کرنا ہے۔ اس لئے ہم نے نوجوانوں میں آگاہی اور ایک فورم پر متحد ہونے کے لئے مہم چلارہے ہیں تاکہ یکجا ہوکر مسائل کے حل کے لئے کردار ادا کیا جاسکے۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ سابق حکومت صوبے کے مسائل حل کرنے میں ناکام رہی اور نوجوانوں کو روزگار کی بجائے ملازمتیں فروخت کی جارہی جس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے