بلوچ طلباء کو غیر قانونی طریقے سے اغوا کرنا انتہائی سنگین شکل اختیار کر چکا ہے۔ بی ایس سی

223

بلوچ سٹوڈنٹس کونسل اسلام آباد کے ترجمان نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ ریاست کی جانب سے ماورائے عدالت جبری گمشدگیاں بلوچستان میں ایک معمول بن چکی ہیں۔ ریاستی ادارے بِلا جواز آئے روز بلوچ عوام اور خاص طور پہ بلوچ طلباء کو جبری گمشدگیوں کا نشانہ بناتے ہیں۔ جس کے بعد نہ انہیں کسی عدالت میں پیش کیا جاتا ہے اور نہ ان کے فیملی ممبرز کو اس بارے میں کوئی تفصیل فراہم کی جاتی ہے۔

ترجمان نے مزید کہا کہ گُزشتہ روز بلوچستان کے شہر تربت کے مین بازار سے ایرڈ ایگریکلچر یونیورسٹی راولپنڈی میں شعبہ ایجوکیشن کے طالبعلم احمد خان کو اُن کے پانچ فیملی ممبرز ظہر احمد، پیرجان، شاہ جہان، عادل بلوچ اور شوکت بلوچ کے ہمراہ دن دہاڑے دوپہر 2 سے 3 بجے کے درمیان سیکیورٹی فورسز کے ہاتھوں جبری لاپتہ کیا گیا۔ 24 گھنٹے گزرنے کے باوجود نہ اُنہیں کسی عدالت میں پیش کیا گیا ہے اور نہ اُن کے فیملی ممبرز کو ان کے بارے میں کوئی معلومات فراہم کی گئی ہے۔ جس کی وجہ سے اُن کے فیملی ممبرز اِنتہائی کرب اور پریشانی سے گزر رہے ہیں۔

واضح رہے کہ احمد خان ولد شُگر اللہ ایک سال قبل راولپنڈی سے جبری گمشدگی کا شکار بننے والے ایرڈ ایگریکلچر یونیورسٹی راولپنڈی کے طالبعلم فیروز بلوچ کے کلاس فیلو ہیں۔ جنہیں گزشتہ سال 11 مئی کو ہاسٹل سے لائبریری جاتے ہوئے جبری طور پر لاپتہ کیا گیا تھا۔ اسلام آباد ہائیکورٹ کی جانب سے واضح ڈائریکشنز ملنے کے باوجود فیروز بلوچ کو تاحال کسی عدالت میں پیش نہیں کیا گیا ہے اور نہ ہی اُنہیں منظرِ عام پہ لایا گیا ہے۔ جب کہ پیرجان، شاہ جہان، عادل بلوچ اور شوکت بلوچ مقامی اسکول میں میٹرک کے طالب علم ہیں اور ظہر احمد پیشے سے ایک ڈرائیور ہے۔

بیان کے آخر میں ترجمان نے متعلقہ اداروں سے جبری گمشدگی کے غیر قانونی عمل کو روکنے کی درخواست کرتے ہوئے کہا کہ احمد خان اور فیروز بلوچ سمیت تمام لاپتہ بلوچ طلباء کو رہا کیا جائے اور جبری گمشدگیوں کے اس نا ختم ہونے والے سلسلے کو بند کیا جائے۔ بلوچ سٹوڈنٹس کونسل اسلام آباد بلوچ طلباء کی جبری گمشدگیوں کے خلاف کسی بھی قسم کے احتجاج کا حق محفوظ رکھتی ہے اور تمام طبقہ فکر کے لوگوں سے درخواست کرتی ہے کہ اس غیر آئینی عمل کو روکنے میں ہمارا ساتھ دیں۔