بلوچستان سے تسلسل کیساتھ فوجی آپریشن، گھروں پر چھاپوں، جبری گمشدگیوں، جعلی مقابلوں اور مظاہروں کی خبریں سامنے آتی ہیں، تاہم مذکورہ واقعات میں سے ایک بڑی تعداد رپورٹ نہیں ہوپاتی۔ جس میں دور دراز علاقوں میں مواصلات کی عدم موجودگی سمیت حکومتی سطح پر ان واقعات کو سامنے نہ لانا شامل ہیں۔
ٹی بی پی کے اعداد و شمار کے مطابق رواں سال چھ مہینے کے دوران بلوچستان بھر میں فوجی آپریشنوں، چھاپوں اورناکہ بندیوں کا سلسلہ جاری رہا، ان کارروائیوں میں پاکستان فوج، پیرا ملٹری فورس فرنٹیئر کور، سی ٹی ڈی، خفیہ ادارے، پولیس و دیگر عسکری ادارے شامل رہے ہیں۔
دی بلوچستان پوسٹ کے ویژول اسٹوڈیو کے اس انفوگرافکس میں 2023 کی پہلی شش ماہی میں بلوچستان میں پاکستانی فورسز کی کارروائیوں کو دکھایا گیا ہے۔ گذشتہ چھ مہینے کے دوران پاکستانی فورسز کی کارروائیوں سے مجموعی طور پر بلوچستان کے 42 علاقے متاثر ہوئے۔
کارروائیوں میں سب سے زیادہ متاثرہ علاقوں میں تربت میں 40 کارروائیاں، بولان میں 36، پنجگور میں 33، خضدار میں 30، قلات میں 20، کوئٹہ میں 17، تمپ میں 14، نوشکی میں 11 اور مستونگ میں 11 کارروائیاں کی گئیں۔
پاکستان فوج نے رواں سال چھ مہینے کے دوران بلوچستان میں کل 361 کارروائیاں کیں، جن میں 149 چھاپے، 113 ناکہ بندی اور 99 فوجی آپریشن شامل ہیں جبکہ ان آپریشنوں کے دوران کئی دنوں تک علاقوں کی ناکہ بندی شامل ہیں جیسے کہ بولان کے علاقوں میں 20 دنوں تک ناکہ بندی دیکھی گئی۔
مذکورہ چھاپوں میں مبینہ طور پر مناسب قانونی طریقہ کار کو نہیں اپنایا گیا، متاثرین کے مطابق فورسز نے آدھی رات کو گھروں کی دیواریں پھلانگ کر گھروں میں موجود خواتین و بچوں کو زدوکوب کیا اور نوجوان لڑکوں سمیت بزرگوں کو حراست میں لیکر حبس بے جا میں رکھا گیا جبکہ کئی کارروائیوں میں آبادیوں کے درمیان گھروں پر مارٹر گولے بھی داغے گئے ۔
اسی طرح فوجی آپریشنوں میں خواتین و بچوں کو بطور ڈھال استعمال کرنے اور حراست میں رکھنے کے واقعات سمیت مردوں کے ماورائے قانون قتل کے واقعات بھی رپورٹ ہوئے جبکہ شہروں سمیت محلوں و شاہراہوں پر ناکہ بندیوں میں متاثرین کے ہراساں کرنے کی شکایات بھی سامنے آئیں۔
ماہانہ بنیادوں پر ہونے والی چھاپوں، فوجی آپریشن اور ناکہ بندیوں کی صورت میں کاررائیوں میں جنوری میں 40 ، فروری میں 50، مارچ میں 65، اپریل میں 59، مئی میں 51، جون میں 71 کارروائیاں رپورٹ ہوئیں۔
* ان معلومات کو متعدد رپورٹس پر مبنی ڈیٹا اور ٹی بی پی کے دسترس کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے دیکھا جائے۔